مذہب یا عقیدے کی آزادی پر فلمیں
8 فلموں کا یہ سیٹ آپ کو یہ سمجھنے میں مدد کرے گا کہ مذہب یا عقیدے کی آزادی (ایف او آر بی) میں کیا کچھ شامل ہے اور یہ کس صورت میں محدود ہوسکتا ہے۔
فلم سیکھنے اور اپنا علم لوگوں تک پہنچانے کا بہترین ذریعہ ہے۔ ہماری مختصر مگر ’وضاحت کرنے والی‘ فلیمں ذاتی علم اور مہارتوں میں اضافے، سٹاف کی آن لائن تربیت اور مختلف گروپس کی تربیت کے دوران استعمال میں لانے کے لئے بہترین ثابت ہوتی ہیں۔ کیوں نہ کلاس روم کو کچھ دیر کے لئے لپیٹ دیا جائے اور تربیت کے آغاز سے قبل شرکأ کو یہ فلمیں دکھائی جائیں تاکہ آپ سب کا ایک دُوسرے سے تعارف ہوسکے؟
اسکرپٹ: مذہب یا عقیدے کی آزادی ۔۔۔ ایک تعارف
یہ ان آٹھ مختصر فلموں میں سے پہلی فلم ہے جس کا تعلق فکر، ضمیر، مذہب یا عقیدے کی آزادی کے انسانی حق سے ہے، اور اس سے کہ کب اور کس صورت میں یہ حق محدود ہوجاتا ہے۔ اس مختصر تعارف میں، ہم یہ سوچنے سے آغاز کرتے ہیں کہ انسانی حقوق سے کس کا تحفظ ہوتا ہے اور مذہب یا عقیدے کی آزادی سے ہمیں کون سے حقوق حاصل ہوتے ہیں۔
آپ سے ایک سوال پوچھنے سے ابتدا کرتے ہیں۔ مذہب یا عقیدے کی آزادی کے انسانی حق سے کون سے مذاہب کا تحفظ ہوتا ہے؟
آپ کے خیال میں کیا دنیا کے بڑے مذاہب کا؟
یا تمام مذاہب کا جن میں چھوٹے یا کم جانے گئے مذاہب شامل ہیں؟
یا شائد ان میں تمام مذاہب اور ہر طرح کے عقیدے شامل ہیں؟
دراصل یہ ایک مشکل سوال تھا۔ میں نے پوچھا کہ ان سے کون سے مذاہب کا تحفظ ہوتا ہے۔ اکثر لوگ یہ فرض کر لیتے ہیں کہ مذہب اور عقیدے کی آزادی سے مذہب اور عقیدوں کا تحفظ ہوتا ہے۔ درحقیقت ایسا نہیں ہے۔ باقی تمام انسانی حقوق کی طرح مذہب یا عقیدے کی آزادی سے مذاہب یا عقیدوں کا نہیں بلکہ لوگوں کا تحفظ ہوتا ہے۔
مذہب یا عقیدے کی آزادی لوگوں کا تحفظ کرتی ہے چاہے وہ قدیم مذاہب پر یقین رکھتے یا ان پر عمل کرتے ہوں یا جدید مذاہب پر یا ان مذاہب پر جو کسی ملک میں روایتی کہلاتے ہیں یا غیر روایتی کہلاتے ہیں۔ یہ ان لوگوں کا بھی تحفظ کرتی ہے جو بنیادی سوالوں کے بارے میں غیر مذہبی عقیدہ رکھتے ہوں جیسے ملحد، انسان پرست یا جنگ کے مخالف۔ چاہے وہ کسی بھی ملک میں رہتے ہوں۔
مذہب یا عقیدے کی آزادی حتیٰ کہ ان لوگوں کا بھی تحفظ کرتی ہے جو کسی بھی مذہب یا عقیدے کو نہیں مانتے۔
دوسرے لفظوں میں مذہب یا عقیدے کی آزادی سب کا تحفظ کرتی ہے۔ چنانچہ ہمیں کون سا تحفظ اور حقوق حاصل ہیں؟ یہ جاننے کے لیے ہمیں انسانی حقوق کے عالمی منشور اور معاہدوں کو دیکھنا ہوگا۔ ان میں سے دو سب سے اہم یہ ہیں:
انسانی حقوق کے بارے میں اقوام متحدہ کے عالمی منشور کی دفعہ ۱۸
شہری اور سیاسی حقوق کے بارے میں اقوام متحدہ کے عالمی معاہدے کی دفعہ ۱۸
اقوام متحدہ کا عالمی منشور سیاسی ارادے کا اظہار کرتا ہے۔ جبکہ ریاستیں اقوام متحدہ کے معاہدوں اور کنوینشنز کی قانونی طور پر پابند ہوتی ہیں۔ آئیے شہری اور سیاسی حقوق کے معاہدے کے متن پر ایک نظر ڈالتے ہیں:
دفعہ 18
1۔ ہر شخص کو فکر، ضمیر اور مذہب کی آزادی کا حق حاصل ہوگا۔ اس حق میں اپنی پسند کا مذہب یا عقیدہ رکھنے یا اختیار کرنے اور انفرادی طور پر دوسروں کے ساتھ مل کر کھلے عام یا نجی طور پر عبادت کے ذریعے اپنے عقیدے کا اظہار کرنے، اس پر عمل کرنے اور تبلیغ کرنے کی آزادی بھی شامل ہے۔
2۔ کسی شخص پر کوئی ایسا دباؤ نہیں ڈالا جائے گا جس سے اپنی پسند کا مذہب یا عقیدہ رکھنے یا اختیار کرنے کی آزادی کو گزند پہنچے۔
3۔ کسی شخص کے مذہب یا عقیدے کا اظہار صرف ان حدود کے ساتھ مشروط ہوگا جو حدود قانون نے مقرر کی ہیں اور جو تحفظ عامہ، امن و امان، دوسرے لوگوں کی صحت، اخلاق یا ان کے بنیادی حقوق اور آزادی کے تحفظ کے لیے ضروری ہیں۔
4۔ اس میثاق میں شریک ممالک، والدین اور جہاں وہ موجود نہ ہوں قانونی سرپرستوں کی آزادی کا احترام کرنے کا عہد کرتے ہیں کہ وہ اپنے عقیدے کے مطابق اپنے بچوں کو مذہبی اور اخلاقی تعلیم دلوائیں۔
تو عملی طور پر جن لوگوں کا تحفظ ہوا ان کے لیے اس کا کیا مطلب ہے؟ ہمارے کیا حقوق ہیں؟ ہم یہاں ان سات موضوعات کا تعارف کرائیں گے جن سے ان حقوق پر روشنی پڑتی ہے جنہیں مذہب اور عقیدے کے حوالے سے بین الاقوامی قانون یقینی بناتا ہے۔
ان پہلی دو آزادیوں کو مذہب یا عقیدے کی آزادی کے حق کا دل کہا جاسکتا ہے:
۔۔ کوئی مذہب یا عقیدہ رکھنے، اختیار کرنے یا چھوڑنے کی آزادی اور
۔۔ کسی مذہب یا عقیدے پر عمل کرنے اور اس کا اظہار کرنے کی آزادی
۔۔ اور سب سے بڑھ کر ہمیں مذہب اور عقیدے کے معاملے میں کسی جبر سے تحفظ
۔۔ یا امتیاز سے تحفظ حاصل کرنے کا بھی حق ہے۔
۔۔ مذہب اور عقیدے سے متعلق والدین اور بچوں کے حقوق اور
۔۔ ہمیں اپنے ضمیر کے مطابق انکار کا حق بھی حاصل ہے۔
مذہب یا عقیدے کی آزادی کا ایک کلیدی پہلو یہ ہے کہ کب اور کس صورت میں یہ حقوق محدود ہوسکتے ہیں۔
اس ویب سائٹ پر آپ ان تمام موضوعات کے بارے میں ایک مختصر فلم دیکھ سکیں گے کہ عملی طور پر ان حقوق کا کیا مطلب ہے۔
Copyright: SMC 2018
End of Transcript
1۔ مذہب یا عقیدے کی آزادی کا ایک تعارف
مذہب یا عقیدے کی آزادی سے کس کا تحفظ ہوتا ہے؟ بین الاقوامی کنونشنز کیا کہتے ہیں اور ہمیں کیا حقوق دیتے ہیں؟ ہماری آٹھ مختصر فلموں میں سے پہلی فلم، جو مذہب یا عقیدے کی آزادی پر بنیادی سکھائی پیکیج کا حصہ ہے، انہیں مذہب یا عقیدے کے سکھائی پلیٹ فارم نے بہت سے دوسرے انسانی حقوق اور عقیدے کی بنیاد پر کام کرنے والے اداروں اور تنظیموں کے اشتراک سے پیش کیا۔
اسکرپٹ: مذہب یا عقیدے کی آزادی ۔۔۔ مذہب یا عقیدے کو رکھنے یا بدلنے کا حق
مذہب یا عقیدے کی آزادی کا سب سے بنیادی پہلو یہ ہے کہ اس سے آپ کو اپنا مذہب یا عقیدہ رکھنے، اختیار کرنے، تبدیل کرنے یا چھوڑنے کا حق ملتا ہے۔ یہ حق آپ کے ذاتی ایمان سے متعلق ہے اور مذہب یا عقیدے کا داخلی پہلو ہے۔ اپنا مذہب یا عقیدہ رکھنے یا بدلنے کا حق ایک حتمی حق ہے اور بین الاقوامی قانون کے مطابق، اس کو کبھی محدود نہیں کیا جا سکتا۔ چاہے آپ ایک مسیحی ہوں یا مسلمان، بہائی، یزیدی یا ملحد، چاہے آپ سنگاپور میں رہتے ہوں، سویڈن میں یا سوڈان میں، چاہے امن ہو یا جنگ، مذہبی یا سیاسی رہنما کچھ بھی کہتے رہیں، آپ اور ہر شخص کا یہ حق ہے کہ اپنے عقائد پر قائم رہیں، ان کی تحسین کریں، یا انہیں تبدیل کریں یا کوئی بھی عقیدہ نہ رکھیں۔
بدقسمتی سے بہت سے لوگوں کے اس بنیادی حق کو تسلیم نہیں کیا جاتا اور ان کو ان کے مذہب یا عقیدے کی وجہ سے سزا دی جاتی ہے، ان پر حملے کیے جاتے ہیں، کبھی حکومت کی طرف سے، کبھی خاندان کی طرف سے اور کبھی اپنی کمیونٹی کے گروہوں کی طرف سے۔
کچھ حکومتیں کچھ خاص مذاہب یا عقیدوں پر پابندی لگا دیتی ہیں۔ فالن گانگ بدھ مت کی ایک شکل ہے جس پر چین میں پابندی ہے۔ فالن گانگ کے پیروکاروں کو قید و بند، تشدد، جبری مزدوری اور دوبارہ تعلیم جیسی سزاؤں کا سامنا کرنا پڑا ہے تاکہ انہیں ان کے عقائد چھوڑنے پر مجبور کیا جاسکے۔
اریٹیریا میں صرف چار مذاہب ہیں جنہیں ریاست تسلیم کرتی ہے اور دوسرے غیر تسلیم شدہ مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں، جیسے پینٹی کاسٹل مسیحی یا یہووا کے گواہوں کو ماننے والوں کو مختلف طرح کی سخت سزائیں دی جاتی رہی ہیں۔
مذہب یا عقیدے کی آزادی کے حق کی خلاف ورزی کی ایک مثال نفرت پر مبنی جرائم ہیں جہاں تشدد کا شکار لوگوں کو ان کی مذہبی شناخت یا عقائد کی وجہ سے نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ان پر اس لیے حملہ کیا جاتا ہے کیوںکہ وہ کوئی خاص مذہب یا عقیدہ رکھتے ہیں۔
فرانس میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پر مبنی جرائم جن میں حملہ کرنا، ہراس کرنا، اور مجرمانہ نقصان پہنچانا شامل ہے، 2015 میں 336 حملوں کے ساتھ 250 گنا اضافہ ہوا۔ جبکہ یہودی کمیونٹی کے خلاف نفرت پر مبنی جرائم کی شرح بھی 715 ریکارڈ شدہ حملوں کے ساتھ بلند رہی۔
دیہی میکسیکو کے کچھ علاقوں میں پروٹسٹنٹ مسیحیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور علاقے کے بڑوں کی طرف سے انہیں ان کی زمینوں سے بے دخل کیا گیا تاکہ روایتی اور کیتھولک مسیحیت کو محفوظ کیا جاسکے۔
بہت سے ملکوں میں مذہبی شناخت، قومی شناخت اور ریاستی شناخت ایک دوسرے کے ساتھ مدغم ہیں۔ اس صورت حال میں وہ مذہبی اقلیتیں اور لوگ جو اکثریتی مذہب چھوڑ دیں ان کو غیر محب وطن سمجھا جاتا ہے، بلکہ بعض اوقات انہیں قومی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھ لیا جاتا ہے۔
کسی مذہب یا عقیدے کو چھوڑنے کے مطلق انسانی حق کو اکثر تسلیم کرنے سے انکار کردیا جاتا ہے۔
انڈونیشیا میں مذہبی آزادی کے قوانین موجود ہیں۔ اگرچہ یہ قوانین صرف مخصوص مذاہب کے لوگوں کا تحفظ کرتے ہیں مثلا اسلام، کیتھولک اور پروٹسٹنٹ مسیحیت، بدھ مت، کنفیوشس ازم اور ہندومت۔ لیکن لامذہبیت کا تحفط نہیں ہے۔ تیس سال کی عمر میں مسلم پس منظر رکھنے والے ایلکس آن کو اس لیے ڈھائی سال قید اور گیارہ ہزار ڈالر جرمانہ کی سزا برداشت کرنا پڑی کیونکہ اس نے فیس بک پر الحاد کا ایک صفحہ شروع کیا تھا اور لکھا تھا کہ ’ خدا موجود نہیں ہے‘۔
ایلکس آن پر الزام لگایا گیا تھا کہ اس نے مذہبی نفرت پر مبنی مواد کو پھیلایا اور انٹر نیٹ پر توہین مذہب کا مرتکب ہوا۔ اور یہ کہ اس نے دوسروں کو بھی الحاد کی دعوت دی۔ اس کے باوجود کہ آن نے اپنے فیس بک کے صفٖحے پرعوام سے معافی مانگی لیکن لوگوں کے بپھرے ہجوم نے اس کو تشدد کا نشانہ بنایا اور خود اس کی کمیونٹی نے اسے مسترد کردیا۔
ایران میں اسلام چھوڑ کر مسیحیت قبول کرنے والوں کو سخت سزا کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ خاص طور پر اگر ان کا تعلق گھروں میں قائم غیر رجسٹرڈ چرچز کے ساتھ ہو۔ جولائی 2017 میں اپنا مذہب تبدیل کرنے والے ایسے چار لوگوں کو دس دس سال قید کی سزا سنائی گئی اور ان پر ’قومی سلامتی کے خلاف‘ کام کرنے کا الزام لگایا گیا۔ ان میں سے تین کو اس سے قبل کیتھولک رسم کے مطابق کمیونین وائن پینے پر 80 کوڑوں کی سزا بھی دی گئی تھی کیونکہ حکومت کے نزدیک وہ ابھی بھی مسلمان تھے اور ایران میں کسی مسلمان کو کسی بھی طرح کی شراب پینے کی اجازت نہیں ہے۔
اکثر سیاسی اور مذہبی رہنما اکثریتی مذہب چھوڑنے یا کسی خاص فرقے یا گروہ کے خلاف پابندیوں اور سزاؤں کو درست ثابت کرنے کے لیے مقدس متنوں اور مذہبی روایتی قوانین کی من چاہی تشریح کرتے ہیں۔ ان کو دی جانے والی سزاؤں میں موت کی سزا، قید، ملازمت سے برخاستگی، شادی کی منسوخی اور بچوں کی سرپرستی سے محرومی جیسی سزائیں شامل ہیں۔ کئی مسلم اکثریتی ممالک میں جن میں سعودی عرب اور پاکستان بھی شامل ہیں، مذہب اسلام کو چھوڑنے پر ایسی قانونی پابندیاں عائد ہیں۔ تاہم یہ پابندی کوئی ایسی ناگزیر نہیں ہے۔ مثال کے طور پر سرالیون میں مسلمانوں کی آبادی ستر (70) فیصد اور مسیحیوں کی آبادی بیس (20) فیصد ہے اور مذہب عوام میں مقبول بھی ہے۔ لیکن یہاں مذہب کو سیاسی رنگ نہیں دیا گیا اور دونوں مذاہب میں لوگوں کا ایک سے دوسرا مذہب تبدیل کرنا ایک عام سی بات ہے۔
اس طرح کے مسائل صرف مسلم اکثریتی ممالک تک محدود نہیں ہیں۔ وسطی افریقی جمہوریہ کے کچھ علاقوں میں نام نہاد بلاکا مخالف عسکریت پسندوں نے مسلمان اقلیت کے ارکان کو مسیحی بننے پر مجبور کرنے کے لیے جان سے مارنے کی دھمکیاں دی ہیں اور بھارت کی کئی ریاستوں میں تبدیلی مذہب کے لیے قانونی رکاوٹیں موجود ہیں۔ مثال کے طور پر، جو لوگ مذہب تبدیل کرنا چاہیں انہیں حکومتی اداروں سے اجازت نامہ حاصل کرنا پڑتا ہے۔
اور صرف حکومتیں ہی نہیں ہیں جوان حقوق کو پامال کرتی ہیں۔ بھارت میں تشدد کے ایسے سخت واقعات پیش آئے ہیں جن میں ہندو قوم پرستوں نے مسیحی اور مسلمان آبادیوں پر حملہ کیا ہے اور کئی بار تشدد کے ذریعے مذہب تبدیل کروائے گئے ہیں۔ چند مثالوں میں بے گھر کردیے جانے والے لوگوں کو صرف اسی صورت میں اپنے گھر واپس جانے کی اجازت دی گئی ہے کہ وہ اپنا مذہب تبدیل کرلیں۔
اسی طرح صرف مذہبی لوگوں کو ہی مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ جو لوگ مذہبی تصورات پر یا مذہب اور ریاست کے تعلق پر تنقید کرتے ہیں، ان کے لیے بھی بڑے خطرات ہیں۔ حالیہ سالوں میں بنگلہ دیش میں کئی بلاگرز کو انتہا پسند گروہوں نے اس لیے قتل کردیا کہ وہ مذہبی تصورات اور رسوم پر اور ریاست پر تنقید کرتے تھے۔ افسوس کہ بنگلہ دیشی حکومت کی کوششیں ان انتہاپسند گروہوں کو روکنے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہوسکیں۔ کچھ حکومتیں مذہبی تصورات پر تنقید کرنے والے لوگوں پر حملوں کی مذمت کرنے میں بھی کامیاب نہیں ہوسکیں۔ ان کی اس خاموشی سے یہی پیغام ملتا ہے کہ تشدد قابل قبول ہے اور اس کا جواز ہے۔
اپنے مذہب یا عقیدے کو تبدیل کرنے کی آزادی بین الاقوامی سطح پر کافی متنازع ہے۔ درحقیقت ہر بار جب اقوام متحدہ کی رکن ریاستیں کسی نئے معاہدے یا اعلامیے پر اتفاق کرتی ہیں تو اس میں تبدیلی مذہب کے حق کا اظہار کمزور رہا ہے۔
لیکن اگرچہ اس کی زبان کمزور بھی ہوجائے، اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمیٹی، جس کا کام ہی مختلف ممالک کو رہنمائی فراہم کرنا ہے کہ وہ شہری اور سیاسی حقوق کے معاہدوں کی کیا تشریح کریں، کا یہ کہنا ہے ’ایک مذہب یا عقیدے کو رکھنے یا اختیار کرنے کی آزادی کا لازمی طور پر یہ مطلب ہے کہ کسی مذہب یا عقیدے کو منتخب کرنے کی بھی آزادی ہے جس میں اپنے موجودہ مذہب یا عقیدے کو تبدیل کرکے کوئی دوسرا مذہب اختیار کرنے سے لے کر لامذہبیت اختیار کرنا اور یا اپنے مذہب یا عقیدے پر قائم رہنے کا حق بھی شامل ہے‘۔
مختصر یہ کہ اپنے مذہب یا عقیدے کو رکھنے یا بدلنے کا حق حتمی ہے۔ اس کو کسی بھی صورت میں محدود نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے باوجود بعض حکومتیں اس حق کو محدود کرتی ہیں اور بہت سی مثالوں میں خاندان یا گروہ اپنا مذہب تبدیل کرنے والوں کو مختلف طرح سے نشانہ بناتے ہیں۔
آپ مذہب یا عقیدہ رکھنے یا بدلنے کے حق کے حوالے سے مزید معلومات اس ویب سائٹ پر موجود تربیتی مواد میں حاصل کرسکتے ہیں، اس میں انسانی حقوق پر ان دستاویزات کا متن بھی شامل ہے جن کا یہاں حوالہ دیا گیا ہے۔
Copyright: SMC 2018
End of Transcript
2۔ اپنے مذہب یا عقیدے کو رکھنے یا بدلنے کا حق
کیا حکومتوں، مذہبی قائدین یا خاندان کے ارکان کو آپ کے مذہب یا عقیدہ رکھنے، بدلنے یا چھوڑنے کے حق کو محدود کرنے کا اختیار ہے؟ بین الاقوامی انسانی حقوق کیا کہتے ہیں، حقیقت میں کیا ہوتا ہے؟ ہماری آٹھ مختصر فلموں میں سے دوسری فلم، جو مذہب یا عقیدے کی آزادی پر بنیادی سکھائی پیکیج کا حصہ ہے، انہیں مذہب یا عقیدے کے سکھائی پلیٹ فارم نے بہت سے دوسرے انسانی حقوق اور عقیدے کی بنیاد پر کام کرنے والے اداروں اور تنظیموں کے اشتراک سے پیش کیا۔
اسکرپٹ: مذہب یا عقیدے کی آزادی کے مندرجات ۔۔۔ مذہب یا عقیدے کے اظہار کا حق
مذہب یا عقیدے کی آزادی کا دوسرا مرکزی عنصر تعلیم، عمل، عبادت اور مذہبی رسم میں اپنے عقیدے کے اظہار کی آزادی ہے۔ اسے مذہب یا عقیدے کی آزادی کے خارجی پہلو کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اپنے مذہب کو برقرار رکھنے یا بدلنے کے حتمی حق کے برخلاف مذہب کے اظہار کا یہ حق حتمی نہیں۔ بعض حالات میں اس حق کو محدود کیا جاسکتا ہے۔
اظہار کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اپنے ایمان یا عقیدے کا اظہار لفظوں یا عمل کے ذریعے کیا جائے۔ انسانی حقوق کا بین الاقوامی قانون لوگوں کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ عوامی یا نجی طور پر، اکیلے یا دوسروں کے ساتھ مل کریہ اظہار کرسکیں۔
آپ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ نجی طور پر یا اجتماعی عبادات اور روایات کے ساتھ، اپنی کمیونٹی کے ساتھ مل کر عبادت کرسکیں اور اپنے مذہب کا اظہار کرسکیں ۔
اور کمیونٹی کے بھی حقوق ہیں، اپنے ارکان پر نہیں بلکہ ریاست کے ساتھ تعلق کے حوالے سے۔ ان میں سے ایک بہت اہم حق یہ ہے کہ ریاست یہ یقینی بنائے کہ مذہبی یا عقائد کی حامل کمیونیٹیز اگر قانونی شناخت حاصل کرنا چاہیں تو کرسکیں۔ مطلب یہ کہ وہ اپنے بنک کے اکاؤنٹ کھول سکتی ہیں، لوگوں کو ملازمت دے سکتی ہیں، عمارتوں کی ملکیت حاصل کرسکتی ہیں اور ادارے چلا سکتی ہیں۔
افراد اور گروہوں کے لیے اپنے مذہب یا عقیدے پر عمل کرنے اور اس کا اظہار کرنے کے بہت سے مختلف راستے ہیں۔ اوراقوام متحدہ کے ماہرین نے بہت سی ایسی سرگرمیوں کی مثالیں پیش کی ہیں جن کا تحفظ کیا گیا ہے:
۔۔ عبادت، تہوار اور دیگر مذہبی رسوم کے لیے جمع ہونا
۔۔ مذہبی لباس پہننا اور اپنے مذہب کے مطابق خصوصی خوراک استعمال کرنا
۔۔ عبادت خانوں، قبرستانوں وغیرہ کے لیے جگہ ہونا اور اپنی مذہبی علامات کی نمائش کرنا
۔۔ معاشرے میں اپنا کردار ادا کرنا، مثال کے طور پر رفاعی ادارے بنانا
۔۔ اپنے مذہب یا عقیدے کے بارے میں بات کرنا، اس کی تعلیم دینا، اور اپنے مذہبی قائدین کی تربیت اور تعیناتی کرنا
۔۔ اپنے مذہب یا اعتقاد کے بارے میں لٹریچر لکھنا، چھاپنا اور اسے پھیلانا
۔۔ قومی اور بین الاقوامی سطح پر اپنے مذہب سے متعلق مسائل پر بات کرنا
۔۔ رضاکارانہ ڈونیشن یا چندہ جمع کرنا
اس موقع پر آپ کہہ رہے ہوں گے بہت خوب، یہی وہ حقوق ہیں جو ہم اپنی کمیونٹی کے لیے چاہتے ہیں۔
آپ شائد کچھ پریشان بھی ہوں کہ ان گروہوں کا کیا ہے جو اپنے ارکان کو دباتے اور کنٹرول کرتے ہیں یا جو دوسروں کے خلاف نفرت اور تشدد کو ہوا دیتے ہیں؟ کیا وہ بھی اپنے اعتقادات کو پھیلانے اور عمل کرنے میں آزاد ہیں؟
اس کے دو جواب ہیں:
شہری اور سیاسی حقوق پر بین الاقوامی معاہدہ کی دفعہ ۵ کے مطابق کسی ایک حق کو دوسروں کے حقوق دبانے کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ چنانچہ مذہب یا عقیدے کی آزادی کسی ریاست، کسی شخص یا گروہ کو دوسرے لوگوں کو دبانے، تشدد پر ابھارنے یا پرتشدد کارروائیاں کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔
یقینا بہت سی حکومتیں اور گروہ طاقت اور دباؤ کے حربے استعمال کرتے ہیں۔ لیکن مذہب یا عقیدے کی آزادی سے انہیں یہ حق نہیں ملتا۔ اس کے برعکس اس آزادی کا وجود دباؤ اور تشدد کے ذریعے دبائے گئے لوگوں کا تحفظ کرتا ہے۔
دوسرا یہ کہ اگرچہ اپنے عقائد کو رکھنے یا بدلنے کا حق محدود نہیں کیا جاسکتا لیکن اپنے مذہب یا عقیدے کے اظہاراور اس پر عمل کو محدود کیا جاسکتا ہے۔ تاہم دفعہ 18 سے یہ وضاحت ہوتی ہے کہ ایسا صرف اسی وقت کیا جاسکتا ہے جب درج ذیل چار اصولوں کی پاسداری کی جائے:
یہ تحدید قانون کے مطابق ہونی چاہیے، جو دوسرے لوگوں کے تحفظ کے لیے ضروری ہو، غیر امتیازی ہو، اور اس مسئلے کی مناسبت سے ہو جس کو حل کیا جانا ہے۔
یہ اصول نہایت اہم ہیں۔ ان کے بغیر حکومتیں کسی بھی ایسے گروہ یا مذہبی رسوم پر پابندی لگا سکتی ہیں جسے وہ پسند نہ کرتی ہوں۔
یہ پابندیاں یا تحدید ریاستی کنٹرول کے ایک ہتھیار کے طور پر نہیں بلکہ آخری چارہ کار کے طور پر لگائی جاتی ہیں۔ بدقسمتی سے بہت سی حکومتیں ان اصولوں کو پامال کرتی ہیں اور مذہب کے اظہار کے حق کی ریاستی پامالی کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔
رکاوٹیں پیدا کرنے والے رجسٹریشن کے قوانین ایک بڑا مسئلہ ہیں۔ کچھ حکومتیں رجسٹریشن کرانے کا تقاضا کرتی ہیں اور کسی مذہب یا عقیدے پر عمل کو رجسٹریشن سے مشروط کردیتی ہیں۔ اس سے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ مذہب کے اظہار کی آزادی کو رجسٹریشن سے مشروط نہیں کرنا چاہیے۔ رجسٹریشن ان کمیونیٹیوں کو قانونی تشخص دینے کے لیے ہونی چاہیے، جو ایسا چاہیں۔
اکثر ایسی ریاستیں جو غیر رجسٹر شدہ مذہبی اظہارات پر پابندی لگاتی ہیں ان کے ہاں مذہبی گروہوں کی رجسٹریشن کو محدود کرنے کے لیے قانونی رکاوٹیں بھی موجود ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر قزاقستان میں غیر رجسٹر شدہ مذہبی سرگرمی پر پابندی ہے اور کئی مذہبی گروہ ایسے ہیں جن کی رجسٹریشن نہیں کی گئی۔ اسی طرح اپنے مذہب کے بارے میں اپنی کمیونٹی سے باہر کسی سے بات کرنا غیر قانونی ہے اور تمام مذہبی لٹریچر کو استعمال سے قبل سینسر کرنا ضروری ہے۔ اس سے تمام مذہبی کمیونٹیاں متاثر ہوتی ہیں۔
حکومتیں مذہبی رسوم پر عمل میں بے شمار مختلف طریقوں سے رکاوٹ ڈالتی ہیں۔ ویت نام کی حکومت نے ہاؤ ہاؤ بدھ مت کے پیرو کاروں کو اپنے واحد پگوڈا عبادت خانے میں جانے سے روکنے کے لیے چیک پوسٹیں بنا رکھی ہیں۔ سعودی عرب میں غیر مسلم عوامی طور پر عبادت نہیں کرسکتے اور کچھ تارکین وطن کو عبادت کے لیے جمع ہونے پر چھاپہ مار کر گرفتار اور ملک بدر بھی کیا گیا ہے۔ چین اور انڈونیشیا کے کچھ علاقوں میں چرچ کی عمارات کو حکومتی اداروں نے گرادیا ہے۔
انتہا پسندی کے خلاف روسی قوانین کے تحت ہزاروں مطبوعات پر پابندی لگائی گئی ہے جن میں وہ بہت سی مطبوعات بھی ہیں جو مذہبی اعتقادات کو امن پسندی کے ساتھ پیش کرتی ہیں۔ کسی متن کو چیک کرنا تقریبا ناممکن ہے لیکن کسی کے پاس اس کی موجودگی جرمانوں، قید یا کسی مذہبی کمیونٹی پر پابندی کا باعث بن سکتی ہے۔ کئی رکاوٹیں اس پر بھی ہیں کہ مذہبی اعتقادات کب کس کے ساتھ اور کس کی طرف سے شئر کیے جاسکتے ہیں۔
فرانس میں کچھ قصبوں کے میئرز نے عوامی جگہوں پر امن و امان کے نام پر برکینی پر پابندی لگانے کی کوشش کی۔ برکینی تالاب میں نہانے کا خواتین کا لباس ہے جو چہرے کے علاوہ سارا بدن ڈھانپتا ہے۔ یہ قانون اعلی ترین انتظامی عدالت نے منسوخ کردیا لیکن عوامی جگہوں پر چہرے کے نقاب پر پابندی برقرار رکھی گئی۔ اس طرح کچھ یورپی ممالک میں حلال اور کوشر گوشت پر پابندی ہے۔
مذہب کے اظہار کا حق معاشرے میں لوگوں یا گروہوں کے بعض اقدامات سے بھی محدود ہوتا ہے۔ نو (9) یورپی ملکوں میں پانچ ہزار (5000) یہودیوں کے ساتھ کیے گئے ایک سروے کے مطابق، بائیس فیصد لوگوں نے کہا کہ وہ اپنے ذاتی تحفظ کے خوف کی وجہ سے مذہبی لباس جیسے کہ ان کی ٹوپی، پہننے سے اجتناب کرتے ہیں۔ اسی طرح بہت سے ممالک میں یہودی قبرستانوں کی بے حرمتی کی گئی ہے۔
مصر، پاکستان اور نائجیریا جیسے ممالک کے کچھ علاقوں میں لوگ عبادت خانوں میں جانے سے اس لیے خوف کھاتے ہیں کہ کہیں وہاں دہشت گرد اسلام کے نام پر پرتشدد حملہ نہ کردیں۔ جبکہ سنٹرل افریقن جمہوریہ میں اجتماعی جمعہ کی نماز پڑھنا مسلمانوں کو نشانہ بنانے والے دہشت گردوں کے حملے کے خوف کی وجہ سے ناممکن ہے۔
مختصر یہ کہ مذہب یا عقیدے کے اظہار کی آزادی سے افراد اور گروہوں کے ان حقوق کا تحفظ ہوتا ہے کہ وہ اپنے مذہب یا عقیدے کا الفاظ اور اعمال کے ذریعے اظہار کرسکیں۔ یہ نجی اور عوامی دونوں سطحوں پر کیا جاسکتا ہے۔ انسانی حقوق کی دستاویزات میں ایسی بے شمار مثالیں دی گئی ہیں کہ کس طرح کی عبادات اور رسوم کا تحفظ موجود ہے اور ان میں سے گروہوں کا ایک بہت اہم حق ان کی مذہبی قانونی شناخت کا حق ہے۔
مذہب یا عقیدے کے اظہار کے حق کو محدود تو کیا جاسکتا ہے لیکن صرف اسی صورت میں کہ کچھ اصولوں پر سختی سے عمل کیا جائے جن سے یہ پتہ چلتا ہو کہ یہ تحدید قانونی ہے، دوسرے لوگوں کے تحفظ کے لیے ضروری ہے، غیر امتیازی ہے اور اس مسئلے کی مناسبت سے ہے جسے حل کیا جانا ہے۔
بدقسمتی سے دنیا بھر میں بہت سی حکومتیں ان اصولوں کی پابندی نہیں کرتیں۔ اپنے مذہب یا عقیدے کے اظہار کے حق کو حکومتوں اور معاشرے کے بعض دوسرے گروہوں کی طرف سے پامال کیا جاتا ہے۔
آپ مذہب یا عقیدہ کے اظہار کے حق کے حوالے سے مزید معلومات اس ویب سائٹ پر موجود تربیتی مواد میں حاصل کرسکتے ہیں، جن میں انسانی حقوق پر ان دستاویزات کا متن بھی شامل ہے جن کا یہاں حوالہ دیا گیا ہے۔
Copyright: SMC 2018
End of Transcript
3۔ مذہب یا عقیدے کے اظہار (عمل) کا حق
مذہب یا عقیدے کے اظہار یا اس پر عمل کے بے شمار طریقے ہیں۔ انسانی حقوق کس کا تحفظ کرتے ہیں اور کس کا نہیں؟ دنیا بھر سے اظہار کے حق کی خلاف ورزیوں کی مثالوں کے ساتھ۔ ہماری آٹھ مختصر فلموں میں سے تیسری فلم، جو مذہب یا عقیدے کی آزادی پر بنیادی سکھائی پیکیج کا حصہ ہے، انہیں مذہب یا عقیدے کے سکھائی پلیٹ فارم نے بہت سے دوسرے انسانی حقوق اور عقیدے کی بنیاد پر کام کرنے والے اداروں اور تنظیموں کے اشتراک سے پیش کیا۔
اسکرپٹ: مذہب یا عقیدے کی آزادی کے مندرجات ۔۔۔ جبر سے تحفظ
مذہب یا عقیدے کی آزادی کا ایک اہم پہلو جبر سے تحفظ کا حق ہے۔ جبرکا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی آپ کو کوئی کام کرنے پر مجبور کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کرے۔
مذہب یا عقیدے کی آزادی کا ایک مرکزی پہلو یہ ہے کہ ہر شخص کو اپنا مذہب یا عقیدہ رکھنے یا بدلنے کا حق ہے۔ اسی بات کو اس طرح بھی کہا جاسکتا ہے کہ مذہب یا عقیدہ اوراس کا اظہار رضاکارانہ ہوتا ہے۔
جبر سے تحفظ کا حق اسی کی مزید وضاحت کرتا ہے۔ کوئی بھی، خواہ وہ ریاست ہو، مذہبی رہنما ہوں، یا کوئی بھی اور شخص یا گروہ ہو، یہ حق نہیں رکھتا کہ وہ اپنے مذہب یا رسوم کو زبردستی یا جبر کے ساتھ آپ پر لاگو کرے۔ نہ ہی وہ آپ کو کوئی مذہب یا عقیدہ رکھنے، اختیار کرنے یا بدلنے پر مجبور کرسکتا ہے۔
شہری اور سیاسی حقوق کا بین الاقوامی معاہدہ، دفعہ 18، پیراگراف 2
’کسی شخص پر کوئی ایسا دباؤ نہیں ڈالا جائے گا جس سے اپنی پسند کا مذہب یا عقیدہ رکھنے یا اختیار کرنے کی آزادی کو گزند پہنچے۔‘
یہ پہلو نہ صرف ریاست کو لوگوں پر جبر کرنے سے روکتا ہے بلکہ یہ ریاستوں پر یہ فرض بھی عائد کرتا ہے کہ وہ دھمکیوں اور تشدد سے لوگوں کا تحفظ کریں جس کا سامنا انہیں معاشرے میں دوسرے لوگوں یا گروہوں سے ہوسکتا ہے۔ اس کے باوجود ہم دنیا میں دھمکیوں، تشدد اور جرمانوں یا قید کی سزاؤں جیسی جبر کی مثالیں دیکھتے ہیں۔ جبر کی کچھ شکلیں بالواسطہ بھی ہیں، جیسے مذہب کی تبدیلی کے صلے میں نوکری دینا، یا کوئی مذہب چھوڑنے یا اختیار کرنے سے انکار پر صحت یا تعلیم تک لوگوں کی رسائی میں رکاوٹ ڈالنا۔
بعض اوقات ریاست بھی جبر میں شامل ہوتی ہے، کبھی باقاعدہ قانون سازی کے ذریعے اور کبھی مقامی سظح پر اپنے افسروں کے اقدامات کے ذریعے۔
بہائی کمیونٹی ایران میں سب سے بڑی غیر مسلم مذہبی اقلیت ہے۔ 1979 کے انقلاب کے بعد سے بہائیوں کو منظم طور پر حکومت کی پالیسی کے تحت نشانہ بنایا جاتا ہے، اس لیے کہ وہ اسلام قبول کرنے پر مجبور ہوجائیں۔ انقلاب کے بعد کے دس سالوں میں دو سو(200) سے زیادہ بہائی قتل ہوئے۔ سینکڑوں تشدد کا نشانہ بنے یا انہیں قید کیا گیا اور لاکھوں لوگ اپنی نوکریوں، تعلیم اور دیگر حقوق تک رسائی سے محروم کیے گئے، صرف اور صرف اپنے مذہبی اعتقاد کی وجہ سے۔
دسمبر2017 میں ایران میں 97 بہائی اپنے ضمیر کے قیدی تھے، جن میں 6 قومی سطح کے بہائی قائدین بھی شامل تھے۔
اس مثال سے امتیاز اور جبر میں تعلق کی وضاحت ہوتی ہے۔ ایران میں بہائیوں پر یونیورسٹی میں داخلے اور سول سروس میں ملازمت حاصل کرنے پر پابندی ہے۔ یہ امتیازی قانون جابرانہ ہے۔ اگر کسی طالب علم یا ملازم کے بارے میں یہ معلوم ہوجائے کہ وہ بہائی ہے تو اس کے سامنے دو ہی راستے ہوتے ہیں، یا تو اسلام قبول کرلے یا اپنی پوزیشن سے محروم ہوجائے۔
بعض اوقات تشدد پر آمادہ قوم پرست یا انتہا پسند گروہ لوگوں کو اپنا مذہب یا عقیدہ بدلنے پر مجبور کرتے ہیں۔ نام نہاد اسلامک اسٹیٹ یا داعش نے یزیدیوں اور مسیحیوں دونوں کو اپنا مذہب بدلنے پر مجبور کیا ہے اور ایسا نہ کرنے والوں کو قتل کیا ہے۔ بھارت میں ہندو قوم پرستوں کے فرقہ وارانہ فسادات کے حوالے سے ہندو مت میں جبری تبدیلی مذہب کے واقعات کو ریکارڈ کیا گیا ہے۔ میانمار میں ایسی مثالیں ریکارڈ کی گئی ہیں جن میں فوج نے بندوق کی نوک پر مسیحیوں کو مجبور کیا کہ وہ اپنا مذہب چھوڑ کر بدھ مت اختیار کریں۔ سنٹرل افریقن ریپبلک میں مسلمانوں کو مسیحیت اختیار نہ کرنے پر جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئیں۔
اگرچہ جبر پر پابندی کا اطلاق رسمی طور پر مذہب یا عقیدہ رکھنے، اختیار کرنے یا بدلنے کی لوگوں کی صلاحیت پرہوتا ہے لیکن بہت سے لوگ اپنے مذہب یا عقیدے پر عمل درآمد کے حوالے سے بھی ریاستی یا سماجی جبر کے تجربے سے گزرتے ہیں۔ ایک مسئلہ جس سے اس جبر کی وضاحت ہوتی ہے، اس کا تعلق عورتوں کے لباس سے ہے۔ کچھ ممالک قانونی طور پر عورتوں کو مذہبی لباس پہننے کا پابند کرتے ہیں جبکہ کچھ دوسرے ممالک ایسا کرنے پر پابندی لگاتے ہیں۔ خواتین مذہبی لباس پہننے پر اپنی کمیونٹی سے باہر کے لوگوں کی طرف سے ہراسیت کا شکار ہوسکتی ہیں اور نہ پہننے پر خود اپنی کمیونٹی کے لوگوں کی طرف سے۔
بہت سے مختلف لوگ جبر کا شکار ہوسکتے ہیں۔ کئی ملکوں میں جن لوگوں کے مذہبی خیالات اور رسوم ریاستی نظریے سے یا سماجی اقدار سے مختلف ہوتے ہیں، جبر سے متاثر ہوتے ہیں۔ اقلیتیں، ملحدین، مذہب تبدیل کرنے والے یا وہ لوگ جن کا مذہب غیر ملکی تصور کیا جاتا ہے اکثر جبر کا شکار ہوتے ہیں اور خود مذہبی گروہوں کے اندر، وہ لوگ جن کو اپنے مذہب پر تنقید یا توہین کرنے والا سمجھا جاتا ہے یا یہ کہ وہ اپنے مذہب پر درست عمل نہیں کر رہے، وہ بھی ریاست، اپنے خاندان یا کمیونٹی کی طرف سے اپنے اعتقادات اور اعمال بدلنے کے لیے جبر کا شکار ہوسکتے ہیں۔
مختصر یہ کہ جبر میں دھمکیاں، تشدد، امتیاز یا جرمانے یا قید کی سزائیں شامل ہوسکتی ہیں اور یہ جبر ریاست، لوگوں یا کمیونٹی کے گروہوں کی طرف سے کیا جاسکتا ہے۔ یہ کہنے کا مطلب کہ کسی کو بھی جبر کا شکار نہیں ہونا چاہیے، یہ ہے کہ بین الاقوامی انسانی حقوق کا قانون نہ صرف ریاستوں کو لوگوں پر جبر کرنے سے روکتا ہے بلکہ وہ ریاستوں پر یہ فرض بھی عائد کرتا ہے کہ وہ موثر طریقے سے کام کرتے ہوئے لوگوں کا جبر سے تحفظ کریں اور معاشرے میں سے جبر کا خاتمہ کریں۔
آپ جبر سے تحفظ کے حوالے سے مزید معلومات اس ویب سائٹ پر موجود تربیتی مواد میں حاصل کرسکتے ہیں، جن میں انسانی حقوق پر ان دستاویزات کا متن بھی شامل ہے جن کا یہاں حوالہ دیا گیا ہے۔
Copyright: SMC 2018
End of Transcript
4۔ جبر سے تحفظ
جبر کا مطلب ہے کہ کچھ کہنے یا کرنے کے لیے زبردستی کرنا۔ اس فلم میں حکومت کے اس فرض کا جائزہ لیا گیا ہے کہ وہ مذہب یا عقیدے کے معاملات میں جبر یا زبردستی نہ کرے اور معاشرے میں جبر یا زبردستی سے آپ کو بچائے۔ دنیا بھر کی مثالوں سے جبر کی مختلف شکلوں کی وضاحت کی گئی ہے۔ ہماری آٹھ مختصر فلموں میں سے چوتھی فلم، جو مذہب یا عقیدے کی آزادی پر بنیادی سکھائی پیکیج کا حصہ ہے، انہیں مذہب یا عقیدے کے سکھائی پلیٹ فارم نے بہت سے دوسرے انسانی حقوق اور عقیدے کی بنیاد پر کام کرنے والے اداروں اور تنظیموں کے اشتراک سے پیش کیا۔
اسکرپٹ: مذہب یا عقیدے کی آزادی کے مندرجات ۔۔۔ امتیاز سے تحفظ
ایک حق جس کا قریبی تعلق مذہب یا عقیدے کی آزادی کے حق سے ہے، وہ امتیازی سلوک سے تحفظ کا حق ہے۔ امتیازی سلوک کا مطلب یہ ہے کہ کچھ لوگوں کے ساتھ ان کے مذہب یا عقیدے کی وجہ سے دوسروں جیسا سلوک نہ کیا جائے۔
بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کا ایک مرکزی اصول یہ ہے کہ ریاستوں کو کسی کے ساتھ کسی بھی بنیاد پر، جن میں مذہب اور عقیدہ بھی شامل ہے، امتیازی سلوک کی اجازت نہیں ہے۔ شہری اور سیاسی حقوق پر بین الاقوامی معاہدہ (آئی سی سی پی آر) اور انسانی حقوق کے عالمی منشور کی دفعہ نمبر ۲ اس کی وضاحت کرتی ہے۔
آئی سی سی پی آر، دفعہ 2، پیراگراف 1
’اس میثاق میں شریک ہر ملک اپنے علاقے میں رہنے والے ہر فرد اور ان حدود کے اندر موجود ہر شخص کے ان حقوق کو تسلیم کرنے کا عہد کرتا ہے جو موجودہ میثاق میں تسلیم کیے گئے ہیں۔ اس میں نسل، رنگ، جنس، زبان، مذہب، سیاسی یا دوسرے نظریے، قومی یا معاشرتی جڑوں، جائیداد، پیدائش یا دوسری حیثیت کی بنا پر کسی قسم کا امتیاز نہیں برتا جائے گا۔‘
چنانچہ مذہب یا عقیدے کی بنیاد پر امتیاز پر پابندی ہے۔ امتیاز پر پابندی جبر پر پابندی کا ہی عکس ہے۔ ریاست کے لیے نہ صرف یہ ضروری ہے کہ وہ خود اپنے اقدامات میں امتیاز سے باز رہے بلکہ اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ موثر اقدامات کے ذریعے معاشرے سے امتیاز کا خاتمہ کرے۔
اس کے باوجود، مذہب یا عقیدے کی آزادی کے حق کی خلاف ورزی کا سب سے زیادہ عام تجربہ امتیازی سلوک کی صورت میں تقریبا ہر عقیدے اور مذہب والوں کو ہوتا ہے۔
سویڈن میں محققین نے دریافت کیا ہے کہ وہاں یہودیوں کو کوئی نوکری ملنے کا امکان دوسروں سے 26 فیصد کم ہے جبکہ مسلمانوں کے لیے یہ امکان 30 فیصد کم ہے۔ یہ سوال کہ آجروں کے لیے اپنے سٹاف پر مذہبی علامات جیسے صلیب یا حجاب پہننے پر پابندی لگانا، کب اور کیسے امتیاز قرار پائے گا، بھی بہت اہم ہے۔ اور یہ سوال یورپی عدالتوں اور اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمیٹی میں کئی بار موضوعِ بحث بن چکا ہے۔
امتیاز یا امتیازی سلوک کی بہت سی شکلیں ہیں۔ کبھی یہ ریاست کی طرف سے کسی ایک مذہب کو فوقیت دینے کی صورت میں ہے، جس کی ایک مثال مختص کردہ ریاستی وسائل کو مختلف گروہوں میں تقسیم کرتے ہوئے امتیاز سے کام لینا ہے۔ کبھی یہ امتیاز زیادہ سخت شکل اختیار کرتا ہے جس سے دوسروں کے حقوق پامال ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر جب کچھ گروہوں کو قانونی شناخت حاصل کرنے سے یا اپنی عبادت گاہ کی تعمیر سے روک دیا جائے۔ مذہب یا عقیدے کی بنیاد پر ریاستی امتیاز سے صرف مذہبی سرگرمیاں ہی متاثر نہیں ہوتیں۔ اس سے زندگی کا ہر شعبہ متاثر ہوسکتا ہے، مثلا شادی، بچے کی حوالگی یا ملازمتوں، رہائشی اسکیموں، رفاعی خدمات یا انصاف جیسے شعبے میں امتیاز۔
کئی ملکوں میں لوگوں کے شناختی کارڈ پر ان کا مذہب لکھا ہوتا ہے۔ اس سے اقلیتوں کو ہراس وقت امتیازی سلوک کا سامنا ہوسکتا ہے جہاں بھی انہیں اپنا شناختی کارڈ دکھانا پڑے۔
انڈونیشیا کے کچھ علاقوں میں ہندؤوں کو اپنی شادی یا پیدائش کی رجسٹریشن کے لیے کافی دور جانا پڑتا ہے کیونکہ مقامی افسران ان کی رجسٹریشن نہیں کرتے اور مسیحیوں کو اپنے چرچ کی تعمیر و مرمت کی اجازت حاصل کرنے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ قومی عدالتیں اکثر مسیحیوں کے حق میں فیصلے دیتی ہیں لیکن مقامی افسران اکثر ان کو نظر انداز کردیتے ہیں اور بعض اوقات اس کی وجہ انتہا پسند گروہوں کا خوف ہوتا ہے۔
پاکستان میں امتیازی قوانین نے احمدی کمیونٹی کے لیے اپنے مذہب کی تبلیغ و اشاعت کو جرم بنا دیا ہے اور ان کو ووٹ کا حق بھی حاصل نہیں ہے۔
کینیا میں انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ملک میں دہشت گردی کے خلاف لڑائی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ سیکیورٹی فورسز کی طرف سے مسلمانوں کو بڑے پیمانے پر ٹارگٹ کیا جاتا ہے اور اجتماعی طور پر سزا دی جاتی ہے۔ بے جا گرفتاریوں، تشدد، قتل اور غائب کردینے کی رپورٹس موجود ہیں جن کا حکومت انکار کرتی ہے۔
میانمار کے بائیس دیہاتوں میں مقامی بدھسٹ مونکس نے اپنے دیہات کو مسلمان فری علاقے قرار دے دیا ہے اور سائن پوسٹ لگا دیے ہیں کہ گاؤں میں مسلمان کا داخلہ اور رات گزارنا منع ہے، مقامی لوگوں پر مسلمانوں سے شادی کرنے پر بھی پابندی لگا دی ہے اور نفرت انگیز پراپیگنڈا کیا جاتا ہے۔ حکمرانوں یا انتظامیہ نے ان چیزوں کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔
اکثر لوگوں کو ایک سے زیادہ وجوہات کی بنا پر امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر، ان کے مذہب کی بنیاد پر بھی اور ان کی نسل، ذات، جنس اور طبقاتی فرق کی بنیاد پر بھی۔ انسانی حقوق کی زبان میں اسے انٹر سیکشنل (بین الشعبہ جاتی) امتیاز کا نام دیا جاتا ہے۔ اس سے کچھ گروہ مذہب اور عقیدے کی آزادی کی خلاف ورزیوں کی زد میں زیادہ آجاتے ہیں۔ مثال کے طور پر، خواتین، قدیمی مقامی لوگ (انڈیجنس لوگ)، نسلی اور لسانی اقلیتیں اور ایل جی بی ٹی کمیونٹی، مہاجر اور آباد کار۔
آئیے بھارت میں انٹر سیکشنل امتیاز کی ایک مثال دیکھتے ہیں۔
ہندؤؤں کا ذات پات کا نظام ایک طے شدہ طبقاتی نظام ہے جس میں لوگوں کو اونچی اور کم تر ذاتوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور ان میں دلت بھی شامل ہیں جنہیں کوئی بھی ذات رکھنے کے قابل نہیں سمجھا گیا۔ دلت عام طور پر غریب ترین لوگ ہوتے ہیں جنہیں سخت ترین سماجی اور معاشی امتیاز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگرچہ اس نظام کی جڑیں ہندو مت میں ہیں، طبقاتی نظام پورے بھارتی معاشرے میں سرایت کرچکا ہے اور تمام مذاہب کے ماننے والوں کو کسی خاص ذات یا طبقے کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر، بہت سے بھارتی مسیحی اور مسلمان دلت ذات سے تعلق رکھتے ہیں۔
جب بھارت نے آزادی حاصل کی تو حکومت نے طبقاتی نظام پر پابندی لگا دی اور طبقاتی امتیاز کا مقابلہ کرنے کے لیے مثبت اقدام کا نظام متعارف کرایا۔ (مثبت اقدام کا مطلب ان لوگوں کو ترجیح دینا ہے جو پہلے امتیاز کا شکار رہے ہوں۔)۔ اس نظام کے تحت سرکاری ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں دلتوں کا کوٹہ مقرر کیا گیا اور کئی رفاعی فوائد ان کے لیے رکھے گئے۔ بظاہر یہ بہت اچھا لگتا ہے۔ لیکن یہ فوائد صرف ہندو دلتوں یا دلت ذات والے سکھ اور بدھسٹوں کو پہنچائے گئے لیکن دلت ذات ہی کے حامل مسلمانوں اور مسیحیوں کو ان فوائد سے محروم رکھا گیا۔
مسیحی اور مسلمان دلتوں کو دوہرے امتیاز کا سامنا ہے، ایک تو ان کی ذات کی وجہ سے اور دوسرا ان کے اقلیتی مذہب کی وجہ سے۔ ان کے خلاف ریاست کی طرف سے بھی، ان کے مذہب کی بنیاد پر انہیں مثبت اقدام سے باہر رکھ کر جو طبقاتی نظام کا مقابلہ کرنے کے لیے ہی بنایا گیا تھا، امتیاز کیا جاتا ہے۔ یہ مسیحی اور مسلمان دلتوں کی معاشی اور سماجی ترقی پر اثر انداز ہوتا ہے۔
مختصر یہ کہ ریاستوں کو مذہب یا عقیدے کی بنیاد پر لوگوں کے ساتھ امتیاز کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ ان کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ معاشرے سے امتیاز کو روکنے اور اس کا خاتمہ کرنے کے لیے موثر اقدامات کریں۔
امتیاز کی بہت سی شکلیں ہیں اور یہ زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کرتی ہیں۔ اکثر لوگ متعدد اور انٹر سیکشنل وجوہات سے، جن میں ان کا مذہب اور عقیدہ بھی شامل ہے، امتیاز کا سامنا کرتے ہیں۔
آپ امتیاز سے تحفظ کے حوالے سے مزید معلومات اس ویب سائٹ پر موجود تربیتی مواد میں حاصل کرسکتے ہیں، جن میں انسانی حقوق پر ان دستاویزات کا متن بھی شامل ہے جن کا یہاں حوالہ دیا گیا ہے۔
Copyright: SMC 2018
End of Transcript
5۔ امتیاز سے تحفظ
مذہب یا عقیدے کی بنیاد پر امتیاز کرنے پر پابندی ہے اور ریاستوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو معاشرے میں امتیاز سے تحفظ دیں۔ دنیا بھر کی مثالوں سے امتیاز کی مختلف شکلوں کی وضاحت کی گئی ہے۔ ہماری آٹھ مختصر فلموں میں سے پانچویں فلم، جو مذہب یا عقیدے کی آزادی پر بنیادی سکھائی پیکیج کا حصہ ہے، انہیں مذہب یا عقیدے کے سکھائی پلیٹ فارم نے بہت سے دوسرے انسانی حقوق اور عقیدے کی بنیاد پر کام کرنے والے اداروں اور تنظیموں کے اشتراک سے پیش کیا۔
اسکرپٹ: مذہب یا عقیدے کی آزادی کے مندرجات ۔۔۔ والدین اور بچے
شہری اور سیاسی حقوق پر بین الاقوامی معاہدہ کی دفعہ 18 میں مذہب اور عقیدے کی آزادی کے حوالے سے والدین اور بچوں کے خصوصی حقوق کی وضاحت کی گئی ہے۔ والدین اور قانونی سرپرستوں کو اپنے بچوں کو مذہبی اور اخلاقی تعلیم دینے کا حق حاصل ہے اور یہ بھی کہ وہ اپنی گھریلو زندگی کو اپنے عقائد کے مطابق چلائیں۔
لیکن صرف بڑوں کو ہی انسانی حقوق حاصل نہیں ہیں! بچوں کو بھی مذہب یا عقیدے کی آزادی کا حق حاصل ہے۔۔۔ مثال کے طور پر کسی مذہبی کمیونٹی کی زندگی کا حصہ ہونا اور ان کی مذہبی عبادات اور تہواروں میں شامل ہونا۔ بچوں کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے والدین اور سرپرستوں کی خواہشوں کے مطابق مذہبی تعلیم حاصل کرسکیں۔ انہیں ان کے والدین کی مرضی کے خلاف کسی لازمی مذہبی ہدایات میں شریک ہونے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا اور جب بچے بڑے ہوجائیں تو خود ان کی اپنی خواہشات کو مدنظر رکھنا بھی ضروری ہے۔
ان حقوق کی پامالی کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ وسطی ایشیا کے ممالک میں، سوویت ماضی کے ایک ورثے کے طور پر حکومتوں کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ معاشرے کے ہر پہلو کو کنٹرول کریں۔ مثال کے طور پر تاجکستان میں قانونی طور پر اٹھارہ سال سے کم عمر کے بچوں کو کسی بھی مذہبی عبادت یا تقریب میں شامل ہونے کی اجازت نہیں ہے، سوائے جنازے میں شرکت کے۔ اور کئی وسطی ایشیائی ریاستوں میں حکومتوں نے سکول جانے والے ان بچوں کی تفتیش کی ہے اور ہراساں کیا ہے جو مسجدوں یا مسیحی چرچوں میں گئے یا جو سمر کیمپ جیسی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے بچوں کو سکولوں میں سب کے سامنے مذمت کا نشانہ بنایا ہے۔
تو کچھ حکومتیں بچوں کو مذہب پر عمل سے روکتی ہیں۔ کچھ اور حکومتیں اقلیتی مذاہب سے تعلق رکھنے والے بچوں کو مذہبی ہدایات میں شرکت کرنے پراس لیے مجبور کرتی ہیں کہ انہیں اکثریتی مذہب قبول کروایا جائے۔ حالانکہ حکومتوں کا یہ فرض ہے کہ یہ یقینی بنائیں کہ بچے لازمی مذہبی ہدایات میں شرکت سے نہ صرف نظری بلکہ عملی طور پر استثنا حاصل کرسکیں۔
ترکی میں مذہبی ثقافت اور اخلاقیات کے نصاب میں کچھ اصلاحات کے باوجود لازمی مذہبی ہدایات شامل ہیں۔ یہودی اور مسیحی طلبہ کو نظری طور پر اس سے استثنا حاصل ہے لیکن یہ استثنا حاصل کرنا عملی طور پر بہت مشکل یا ناممکن ہوسکتا ہے۔ جبکہ، علوی، بہائی، لامذہب، ملحد خاندانوں کے طلبہ کو بھی، جن کے اپنے اعتقادات ہیں، ان کلاسز میں شرکت پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ان تمام مثالوں میں والدین اور بچوں کے حقوق پامال ہوتے ہیں۔
بچے کے حقوق پر معاہدہ (سی آر سی) ہونے سے قبل بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون میں بچے کے حقوق کو خاص طور پر موضوع نہیں بنایا گیا تھا۔ مذکورہ بالا معاہدے (کنونشن) نے اس صورت حال کو تبدیل کیا اور اس پر زور دیا کہ بچے بھی حقوق رکھتے ہیں اور دفعہ 14 کی رو سے وہ مذہب یا عقیدے کی آزادی کا حق بھی رکھتے ہیں۔
دفعہ 14 میں بچوں کو آزاد لیکن زد پذیر قرار دیا گیا ہے جنہیں اپنے مذہب یا عقیدے کی آزادی کو استعمال کرنے کے لیے والدین یا سرپرستوں کی مدد اور رہنمائی کی ضرورت ہے، خاص طور پر جب اس کا تعلق ریاست کے ساتھ ہو۔
اس کنونشن کے مطابق تمام معاملات کو دیکھنے کا اصول یہ ہے کہ بچے کا بہترین مفاد کس میں ہے۔ یہ بچوں کے اس حق پر بھی زور دیتا ہے کہ وہ ان تمام معاملات میں اپنی رائے دے سکتے ہیں جن سے وہ متاثر ہوتے ہیں۔ جو بھی ہو، یہ اکثر بالغ، خاص طور پر والدین ہوتے ہیں جو یہ طے کرتے ہیں کہ بچوں کے بہترین مفادات کیا ہیں اور پھر ان کی طرف سے بات کرتے ہیں۔
تاہم بعض اوقات بچوں اور والدین کے مفادات مختلف ہوسکتے ہیں۔ ایسے کیسز میں مذہب یا عقیدے کی آزادی کے بچوں کے حق کو والدین کے اسی حق کے ساتھ توازن قائم کرنا پڑے گا۔ مثال کے طور پر کس عمر میں بچے کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ مذہبی عبادت، رسم یا عقیدے کے بارے میں فیصلہ کرسکے۔ مثلا کیا وہ چرچ جانا چاہتے ہیں؟
بچوں کے حقوق پر کنونشن کے مطابق مذہب یا عقیدے کے معاملات میں والدین کی ہدایات بچے کی بڑھتی ہوئی صلاحیتوں کے مطابق ہونی چاہییں۔ دوسرے لفظوں میں بچہ جوں جوں بڑا اور سمجھدار ہوتا ہے اتنی ہی زیادہ آزادی انہیں حاصل ہونی چاہیے۔
بین الاقوامی قانون کے مطابق، بلوغت کی عمر اٹھارہ سال ہے۔ لیکن بچے جیسے بڑے ہورہے ہوتے ہیں تو کس حد تک آزادی اور ذہنی پختگی وہ حاصل کرتے ہیں اس کا بڑی حد تک تعلق ان کی ثقافت اور ان کے سیاق و سباق سے ہے۔ مختلف ممالک میں مختلف قوانین اور ضابطے ہیں۔ مثال کے طور پر سویڈن میں بچے کو بارہ سال کی عمر کے بعد ان کی مرضی کے خلاف کسی مذہبی کمیونٹی کا حصہ نہیں بنایا جاسکتا۔
بچے کے حقوق پر کنونشن نے ایک عالمی اصول یہ طے کردیا ہے جس کا والدین کو بچوں کی پرورش میں خیال رکھنا ضروری ہے۔۔ اور وہ اصول یہ ہے کہ مذہب یا عقیدے پر کوئی عمل ایسا نہ ہو جو بچے کی جسمانی اور ذہنی صحت کو نقصان پہنچائے یا بچے کی ترقی میں رکاوٹ ہو۔
مذہب اور عقیدے کی آزادی کے والدین کے حقوق اور بچوں کے حقوق سے متعلق زیادہ کیسز عدالتوں میں نہیں جاتے۔ تاہم یہووا کے گواہوں کی کمیونٹی کے والدین کے اس حق کے خلاف کہ وہ بچوں کو ضرورت پڑنے پر خون لگوانے سے روک دیں، عدالت کے فیصلے کی مثال موجود ہے۔ عدالت نے اس مثال میں والدین کے مذہب یا عقیدے کی آزادی کے حق کے خلاف بچے کی زندگی کے حق میں فیصلہ دیا۔
مختصر یہ کہ ہم نے اس فلم میں والدین اور بچوں کے حقوق کے بارے میں جانا۔ بچوں کو مذہب یا عقیدے کی آزادی کا حق حاصل ہے اور والدین کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے اعتقادات کے مطابق بچوں کی پرورش کریں۔ یہ اس انداز میں ہونا چاہیے کہ بچے کی بڑھوتری کے مطابق ہو اور مذہب یا عقیدے پر عمل سے اس کی جسمانی اور ذہنی صحت اور اس کی ترقی کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ ان حقوق کی پامالی کی مثالوں میں وہ ریاستیں شامل ہیں جو بچوں کو مذہب پر عمل سے روکتی ہیں اور وہ ریاستیں جو اقلیتی مذہب کے بچوں پر اکثریتی مذہب کی ہدایات کو زبردستی لاگو کرتی ہیں۔
آپ مذہب یا عقیدے کی آزادی کے حوالے سے والدین اور بچوں کے حقوق کے بارے میں مزید معلومات اس ویب سائٹ پر موجود تربیتی مواد سے حاصل کرسکتے ہیں، جن میں انسانی حقوق پر ان دستاویزات کا متن بھی شامل ہے جن کا یہاں حوالہ دیا گیا ہے۔
Copyright: SMC 2018
End of Transcript
6۔ والدین اور بچوں کے حقوق
والدین اور بچوں کے کیا حقوق ہیں؟ دنیا بھر سے مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ کیسے ریاستیں بچوں کے حقوق پامال کرتی ہیں اور والدین اور بچوں کے حقوق کے درمیان اعتدال کہاں ہے۔ ہماری آٹھ مختصر فلموں میں سے چھٹی فلم، جو مذہب یا عقیدے کی آزادی پر بنیادی سکھائی پیکیج کا حصہ ہے، انہیں مذہب یا عقیدے کے سکھائی پلیٹ فارم نے بہت سے دوسرے انسانی حقوق اور عقیدے کی بنیاد پر کام کرنے والے اداروں اور تنظیموں کے اشتراک سے پیش کیا۔
اسکرپٹ: مذہب یا عقیدے کی آزادی کے مندرجات ۔۔۔ ضمیر کے مطابق انکار
شہری اور سیاسی حقوق کے کنونشن کی دفعہ اٹھارہ میں مذہب اور عقیدے کی آزادی کے ساتھ ساتھ فکر اور ضمیر کی آزادی کا تحفظ بھی موجود ہے۔ چنانچہ اپنے ضمیر کے مطابق انکار کرنے کا حق بھی مذہب اور عقیدے کی آزادی کا حصہ ہے۔
ضمیر کے مطابق انکار کی آزادی کا مطلب یہ ہے کہ ہر ایسا کام کرنے سے انکار کرنا جس کو کرنے سے آپ کے ضمیر یا مذہبی عقیدے کی خلاف ورزی ہوتی ہو۔
عام طور پر جن کاموں سے انکار کا حق رکھنے کا لوگ دعویٰ کرتے ہیں ان میں مثال کے طور پر، لازمی فوجی سروس، حلف اٹھانے، تبدیلی خون یا کسی میڈیکل پروسیجر میں شرکت سے انکار جیسے کام شامل ہیں۔ اقوام متحدہ کی دستاویزات میں ضمیر کے مطابق انکار کی جس واحد شکل کا ذکر کیا گیا ہے، وہ لازمی فوجی سروس سے انکار ہے۔ اور یہ بھی نہ تو اقوام متحدہ کے قانونی طور پر پابند بنانے والے معاہدوں یا کنونشن میں ہے اور نہ ہی انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے میں ۔ بلکہ اس کا ذکر اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی کمیٹی کے کمنٹ نمبر 22 میں موجود ہے۔ یہ دستاویز اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ماہرین نے یہ وضاحت کرنے کے لیے لکھی ہے کہ ریاستوں کو شہری اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے کی دفعہ 18 کو کس طرح سمجھنا ہے۔ اس کمیٹی کے مطابق دفعہ اٹھارہ ضمیر کے مطابق لازمی فوجی سروس جس کا تقاضا کسی کو مارنا ہو، سے انکار کے حق کی حمایت کرتی ہے کیونکہ یہ آپ کے ضمیر کی آزادی اور اپنے مذہب یا عقیدے کے اظہار کے حق سے متصادم ہے۔
بہت سے ممالک اس حق کو تسلیم کرتے ہیں اور متبادل قومی سروس یا استثنا کی اجازت دیتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ایسی ریاستیں بھی ہیں جو اپنے ضمیر یا نظریے کی بنیاد پر لازمی فوجی سروس کرنے سے انکار کرنے والوں کو قید کردیتی ہیں۔ یہووا کے گواہوں کی کمیونٹی اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر دسمبر 2016 میں اپنے ضمیر کے مطابق لازمی فوجی سروس سے انکار کرنے پر جنوبی کوریا میں یہووا کے گواہوں کی کمیونٹی کے 389 لوگ جیل میں قید کی سزائیں کاٹ رہے تھے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے اداروں کے مطابق، غیر فوجی سروس کے متبادل انتظامات تک ضمیر کے مطابق، سب انکار کرنے والوں کوکسی امتیاز کے بغیر رسائی حاصل ہونی چاہئے اور لازمی فوجی سروس سے متاثر ہونے والوں کو ان کے ضمیر کے مطابق انکار کے حق کو استعمال کرنے کے بارے میں معلومات تک بھی رسائی ہونی چاہیے۔ ایسے لوگوں اور رضاکاروں کو لازمی فوجی سروس سے پہلے اور اس کے دوران بھی اس سے انکار کے قابل ہونا چاہیے۔
اپنے ضمیر کے مطابق فوجی سروس سے انکار کے علاوہ ضمیر کے مطابق انکار کی دیگر شکلوں کو اکثر قومی سطح پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس کا تعلق زیادہ تر صحت کے شعبے سے ہے، جیسے وہ دائیاں اور ڈاکٹر جو ابارشن کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ بعض ممالک میں ضمیر کے مطابق انکار کا مسئلہ ہم جنس شادیوں کے معاملے میں بھی اٹھایا گیا ہے۔ کبھی کبھار جب یہ حق دیگر حقوق سے ٹکراتا ہو تو مشکل سوالات سامنے آتے ہیں۔ مثال کے طور پر، اگر ضمیر کے مطابق انکار کا حق خواتین کے حقوق سے ٹکراتا ہو یا امتیازی سلوک کے خلاف قانون سازی کے ساتھ متنازع ہو۔
ضمیر کے مطابق اس طرح کے انکار کے حق کے بارے میں کوئی واضح بین الاقوامی قانونی ہدایات موجود نہیں ہیں۔ دراصل یہ مسئلہ کافی متنازع ہے۔
ذیل میں تین طرح کے دلائل پیش کیے جارہے ہیں جن کا آپ کو سامنا ہوسکتا ہے:
کچھ لوگوں کے مطابق ضمیر کے مطابق انکار کا حق آپ کے مذہب یا عقیدے کی آزادی کے حتمی حق کا لازمی حصہ ہے جس کو کبھی بھی محدود نہیں کیا جاسکتا۔ ان کا کہنا ہے کہ اپنے ضمیر کے مطابق عمل کرنے کا نتیجہ کسی قیمت یا سزا کی صورت میں نہیں نکلنا چاہیے۔ بہرحال یہ درست ہے کہ نظریاتی طور پر جنگ کے کسی سچے مخالف (پیسیفسٹ) کو ایک فوجی بننے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا کیونکہ جنگ کے مخالفین کو فوجی بننے پر مجبور کرنے سے مذہب یا عقیدہ رکھنے کے ان کے داخلی اور مُطلق حق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔
کچھ دوسروں کے مطابق، یہ حق ضرور مُطلق ہے لیکن حالات کی بھی اہمیت ہے۔ ان کی دلیل ہے کہ لازمی فوجی سروس میں آئے ہوئے، قیدی اور دوسرے جن کو اپنی صورت حال پر کوئی اختیار حاصل نہیں ہے، ان کو اپنے ضمیر کی خلاف ورزی کرنے پر مجبور نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن وہ لوگ جو خود کسی نوکری کی درخواست دیتے ہیں اور اسے کبھی بھی چھوڑ سکتے ہیں وہ اپنے آجر سے اپنے ضمیر کے مطابق کام کروانے کی توقع نہیں رکھ سکتے۔ دوسرے لفظوں میں، اپنے ضمیر پر عمل کرنے کا انتخاب کرنے کی ایک قیمت ہے۔
کچھ اور لوگوں کی دلیل یہ ہے کہ ضمیر کے مطابق انکار ایک عمل ہے اور جو آپ کے ضمیر، مذہب یا عقیدے کا اظہار ہے۔ اور اس اظہار کو وہاں محدود کیا جاسکتا ہے جہاں ایسا کرنا دوسروں کے حقوق اور آزادی، عوام کی صحت، نظم و نسق یا اخلاق کے لیے ضروری ہو۔ جہاں تک ضمیر کے مطابق فوجی سروس سے انکار کا تعلق ہے وہاں یہ جاننا اہم ہے کہ قومی سلامتی کی بنیاد پر، مذہب یا عقیدے کی آزادی کو محدود کرنے کی کوئی جائز وجہ نہیں ہے۔
قانونی ماہرین کا اس پر اتفاق نہیں ہے کہ ان تینوں دلائل میں سے کون سی دلیل درست ہے۔
مختصر یہ کہ اس فلم میں ہم نے ضمیر کے مطابق انکار کے مسئلے کا جائزہ لیا ہے۔ ضمیر کے مطابق انکار کا حق ایسا حق ہے جس کے تحت آپ وہ کام کرنے سے انکار کردیں جس کے کرنے کی عام طور پر آپ سے توقع کی جاتی ہے۔ بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون میں اپنے ضمیر کے مطابق لازمی فوجی سروس سےانکار کرنے کا تحفظ کیا گیا ہے۔ کئی ممالک اس حق کو تسلیم کرتے ہیں اور کئی ایسا کرنے والوں کو جیل میں ڈال دیتےہیں۔ کئی اور ریاستیں اپنے ضمیر کے مطابق انکار کرنے کے حق کی دیگر شکلوں کو قومی سطح پر تسلیم کرتی ہیں۔ تاہم یہ حقوق متنازع ہیں اور اس موضوع پر بین الاقوامی قانون ابھی مکمل مرتب نہیں ہوا۔
آپ ضمیر کے مطابق انکار کے حق کے بارے میں مزید معلومات اس ویب سائٹ پر موجود تربیتی مواد سے حاصل کرسکتے ہیں، جن میں انسانی حقوق پر ان دستاویزات کا متن بھی شامل ہے جن کا یہاں حوالہ دیا گیا ہے۔
Copyright: SMC 2018
End of Transcript
7۔ ضمیر کے مطابق انکار
یہ وہ حق ہے جس کے تحت آپ وہ کچھ کرنے سے انکار کرسکتے ہیں جس کے کرنے کی آپ سے توقع کی جاتی ہے لیکن جس کا کرنا آپ کے گہرے عقیدوں سے متصادم ہے۔ یہ مذہب یا عقیدے کی آزادی کا وہ عنصر ہے جس کا تحفظ سب سے کمزور ہے۔ ہماری آٹھ مختصر فلموں میں سے ساتویں فلم، جو مذہب یا عقیدے کی آزادی پر بنیادی سکھائی پیکیج کا حصہ ہے، انہیں مذہب یا عقیدے کے سکھائی پلیٹ فارم نے بہت سے دوسرے انسانی حقوق اور عقیدے کی بنیاد پر کام کرنے والے اداروں اور تنظیموں کے اشتراک سے پیش کیا۔
اسکرپٹ: مذہب یا عقیدے کی آزادی کی حدود
آپ کو خبروں سے یا خود اپنی زندگی کے تجربے سے معلوم ہوگا کہ بہت سی حکومتیں مذہب یا عقیدے کی آزادی پر پابندیاں لگاتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مذہبی اظہارات پر پابندی کی کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے۔ تو ہم کیسے جان سکتے ہیں کہ یہ پابندیاں درست ہیں جن کی اجازت دی جاسکتی ہے یا نہیں۔
انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون کے مطابق، کوئی مذہب یا عقیدہ رکھنے، تبدیل کرنے، اختیار کرنے یا چھوڑنے کا حق حتمی اور مطلق ہے جس کو کبھی محدود نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم دوسری طرف کسی مذہب یا عقیدہ کا اظہار کرنے کا حق محدود کیا جاسکتا ہے لیکن صرف اس وقت جب درج ذیل چار اصولوں کی پابندی کی گئی ہو:
1۔ ایسی تمام حدوں یا پابندیوں کا تعین قانون میں کیا گیا ہو۔
اس کا مقصد ریاستوں، پولیس اور عدالتوں کو غیر متوقع طور پر یا عدم تسلسل کے ساتھ کوئی عمل کرنے سے روکنا ہے۔
2۔ یہ حدیں عائد کرنا عوام کے تحفظ، امن عامہ، صحت یا اخلاق یا دوسروں کے مذہب یا عقیدے کے تحفظ کے لیے ضروری ہو۔
یہ بہت اہم ہے۔ کچھ حدود کو اس لیے لاگو کرنا کہ یہ دوسرے لوگوں کے تحفظ کے لیے ضروری ہے، ووٹ حاصل کرنے کے لیے پابندیاں لگانےسے بہت مختلف ہے۔
3۔ یہ پابندیاں یا حدود امتیازی نہ ہوں۔
4۔ اور کوئی بھی حدود یا پابندیاں اس مسئلے کی مناسبت سے ہوں جو کسی مذہب یا عقیدے کے اظہار کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔
یہ اصول واقعی بہت اہم ہیں۔ ان کے بغیر حکومتیں جس گروہ یا رسم / عمل پر جسے وہ پسند نہ کرتی ہوں، جب چاہیں اورجیسے چاہیں پابندی لگا دیں۔ یہ پابندیاں ریاستی کنٹرول کے لیے نہیں بلکہ ایک آخری چارہ کار کے طور پر ہیں۔
آئیے ایک فرضی مثال کے ذریعے سمجھتے ہیں کہ ان اصولوں کا کیا مطلب ہے۔
ایک ایسے قصبے کا تصور کریں جہاں پانچ مختلف مذاہب کے لوگ رہتے ہیں۔ ان سب کی اپنی عبادت گاہیں ہیں جہاں سے سب کی اپنی اپنی طرح مخصوص اونچی آوازیں باہر آتی ہیں جن سے باقی پڑوسی پریشان ہوتے ہیں۔ لیکن پولیس کو صرف ایک چھوٹے اور غیرمقبول مذہبی گروہ کے بارے میں شکایات موصول ہوتی ہیں۔
اونچی آوازوں کا شور صحت اور عوامی صحت کے لیے مضر ہے اور اس پر پابندی لگانے کا جواز موجود ہے۔ چنانچہ مقامی انتظامیہ کو کیا کرنا چاہیے؟ کس طرح کی پابندیاں ضروری، غیر امتیازی اور عوامی صحت کے تحفظ کے لیے مناسب ہیں؟
اس معاملے میں، ایک عام قانون جو عوامی اجلاس کے لیے آوازوں کی سطح کا تعین کرے مناسب ہے۔ ایک ایسا قانون جو تمام مذہبی گروہوں اور دوسروں کے لیے یکساں نافذ ہو۔ اگر کوئی بھی گروپ اپنی آوازوں کو مقررہ حد سے بڑھاتا ہے تو مناسب ہوگا کہ ان آوازوں کی سطح کم کی جائے یا ان پر جرمانہ عائد کردیا جائے۔ تاہم یہ مناسب نہیں ہوگا کہ ان سے مکمل خاموش ہوجانے کا مطالبہ کیا جائے یا انہیں عوامی اجلاس بلانے سے ہی یکسر منع کردیا جائے۔
اور پولیس کو یہ قانون صرف ایک غیر مقبول مذہبی گروہ کے خلاف نہیں جس کے خلاف شکایت ملی، بلکہ سب پر یکساں لاگو کرنا ہوگا۔
یہ ایک چھوٹی اور سادہ سی مثال ہے۔
جب ہم مذہب یا عقیدے کی آزادی کی بڑی بڑی خلاف ورزیوں پر نظر ڈالتے ہیں تو جب پابندیاں واضح طور پر غیر ضروری، امتیازی اور غیر مناسب ہوں تو ان میں عام طور پر انہی اصولوں کو نظر انداز کیا گیا ہوتا ہے۔
کچھ ممالک ایسی تمام مذہبی سرگرمیوں پر پابندی لگا دیتے ہیں جو اس مقصد کے لیے رجسٹر شدہ عمارت کے باہر وقوع پذیر ہوں۔ اس سے وہ شکرانے کی دعا بھی غیر قانونی ٹھہرتی ہے جو لوگ اپنے مہمانوں کے ساتھ کھانے سے پہلے پڑھتے ہیں۔ اس طرح کی پابندی یقیناً درست نہیں ہے۔
لیکن بہت سے ایسے معاملات ہیں جو متنازع ہیں۔ کیا فرانس میں ایک ٹاؤن میئر کے لیے ٹھیک ہے کہ وہ برکینی پر پابندی لگائے، جو تالاب میں تیرنے کا ایک ایسا لباس ہے جس میں چہرے کے علاوہ پورا جسم ڈھانپا جاتا ہے؟ یا بھارت کے کچھ علاقوں میں انتظامیہ دوسروں کو اپنے عقیدے کے بارے میں بتانے پر پابندی لگا سکتی ہے؟
اس پریزنٹیشن میں ہم ان سات سوالوں کا جائزہ لیں گے جو عدالتوں کو یہ طے کرنے کے لیے پوچھنے چاہئیں کہ کیا کوئی پابندی درست ہے یا نہیں؟ امید ہے اس سے آپ کو ان پابندیوں کا جائزہ لینے میں مدد ملے گی جن کا آپ کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔
جب ایک ریاست پابندی لگاتی ہے تو پہلا سوال یہ پوچھنا چاہیے کہ کیا اس پابندی سے مذہب یا عقیدہ رکھنے یا اختیار کرنے کے حتمی حق پر زد پڑتی ہے یا اس کے اظہار کرنے کے حق پر؟
اکثر کام جو ہم کرتے ہیں وہ ہمارے عقیدے کے مطابق ہوتے ہیں۔ لیکن ہر کام جو ہم کرتے ہیں ضروری نہیں کہ وہ ہمارے مذہب یا عقیدے کے اظہار کی ایسی شکل ہو جس کا تحفظ کیا گیا ہے۔ جب کوئی شخص یہ شکایت کرتا ہے کہ اس کے اظہار کا حق محدود ہوا ہے تو عدالتیں سب سے پہلے یہ دیکھا کرتی ہیں کہ جس رویے کو محدود کیا گیا ہے کیا وہ مذہب یا عقیدے کا اظہار ہے بھی یا نہیں۔ وہ ایسے رویے اور اس کے عقیدے کے درمیان تعلق کو دیکھتی ہیں کہ کیا اس کا کوئی براہ راست تعلق عقیدے سے ہے۔
کبھی کبھار یہ جاننا بہت آسان ہوتا ہے۔ جیسے چرچ جانے کا تعلق مسیحیت سے ہے اور روزے رکھنے کا قریبی تعلق اسلام سے ہے۔
لیکن ہمیشہ یہ اتنا آسان نہیں ہوتا۔ ممکن ہے کسی ایک مسیحی کے لیے صلیب یا کراس پہننا اتنا اہم نہ ہو جتنا یہ کسی دوسرے مسیحی کے لیے ہو جو اسے اپنی مذہبی شناخت کا ضروری اظہار سمجھتا ہے۔ اسی طرح مسلمان خواتین اپنا سر ڈھانپنے کے حوالے سے مختلف اعتقادات رکھتی ہیں۔
عدالتوں کا یہ کام نہیں کہ وہ یہ فیصلہ کریں کہ کون سا عقیدہ درست ہے۔ کسی مذہبی اظہار کے بارے میں فیصلہ کرتے ہوئے عدالتوں کو یہ تعین کرنے میں مشکل پیش آتی ہے کہ کون سی مذہبی تعبیر کو ترجیح دی جائے۔ انسانی حقوق افراد کے حقوق ہوتے ہیں چنانچہ عدالتیں زیادہ تر اس شخص کے متعلقہ عقیدے کو دیکھتی ہیں نہ کہ کسی مذہبی ادارے کو۔ اور یہ دلیل دیتی ہیں کہ اگر کوئی شخص کسی عمل کو اپنے مذہب کا اظہار سمجھتا ہے تواس کے نزدیک ایسا ہی ہے۔
جب ہم یہ طے کرلیں کہ ایک محفوظ اظہار پر پابندی لگائی جا رہی ہے تو ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا یہ پابندی قانون کے مطابق ہے؟
کیا کوئی تحریر شدہ قانون ہے یا کسی کیس کی نظیر موجود ہے یا یہ ایک رواجی قانون ہے جو یہ پابندی لگا رہا ہے؟ یا یہ پابندی افسروں کی طرف سے کسی قانونی بنیاد کے بغیر لگائی جارہی ہے؟ اگر کوئی قانونی بنیاد موجود نہیں ہے تو پابندی جائز نہیں ہے۔
اگلا قدم یہ جائزہ لینا ہے کہ کیا یہ پابندی کسی جائز حق کے تحفظ کے لیے ضروری ہے؟ اس کا جواب دینے کے لیے سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ کیا جس عمل کو محدود کیا جارہا ہے اس میں اور جائز وجوہات میں کوئی براہ راست تعلق ہے؟ اور دوسرا یہ دیکھنا کہ کیا یہ پابندی ضروری ہے؟ چلیے ان دونوں سوالوں کا باری باری جائزہ لیتے ہیں۔
بین الاقوامی قانون کے مطابق، مذہب یا عقیدے کی آزادی کو محدود کرنے کی جائز وجوہات صرف یہ ہیں کہ عوام کے تحفظ، نظم و نسق، عوام کی صحت، اخلاق یا دوسروں کے حقوق اور آزادیوں کا تحفظ کرنے کے لیے ایسا ضروری ہے۔
چنانچہ جس رویے کو محدود کیا جارہا ہے کیا وہ ان صورتوں میں سے کسی صورت کو پامال کرتا ہے؟ اور کیا اس کی کوئی شہادت موجود ہے؟
ریاست کو پابندی لگانے سے پہلے مندرجہ بالا کسی صورت اور اس عمل کے درمیان، جس عمل کو محدود کیا جارہا ہے، براہ راست تعلق کو واضح کرنا ہوگا۔
ہندو ذات پات کے نظام میں لوگوں کو اعلی اور کم تر ذاتوں اور بغیر ذات کے گروپوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ بغیر ذات کے گروہوں کو سخت امتیاز اور سماجی اور معاشی نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کچھ مندروں میں بغیر ذات کے ہندوؤں کو داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی۔ بھارت نے 1949 میں ذات پات کا نظام ختم کردیا اور اب مندروں کو اجازت نہیں کہ وہ بغیر ذات کے ہندوؤں کو مندر میں داخلے سے روک سکیں۔ یہ پابندی مطلوبہ شرائط پر پورا اترتی ہے، کیونکہ ذات پات کی بنیاد پر امتیاز کو روکنے اور دوسروں کے حقوق اور آزادیوں کا تحفظ کرنے میں واضح اور براہ راست تعلق ہے۔
لیکن لگائی جانے والی تمام پابندیوں میں ایسا واضح تعلق ظاہر نہیں کیا جاسکتا اور بعض اوقات حکومتیں ان جائز وجوہات کو غلط پیش کرتی ہیں یا ان کا غلط استعمال کرتی ہیں۔
مذہب یا عقیدے کی آزادی پر پابندیوں کا اکثر تعلق عوامی نظم و نسق سے ہوتا ہے۔ عوامی نظم و نسق سے متعلق قوانین بہت سی چیزوں کا بند وبست کرتے ہیں جن میں دھمکیاں، حملہ، تشدد پر ابھارنا اور بعض اوقات توہین مذہب بھی شامل ہوتی ہے۔
مذہب یا عقیدے کے اظہار کی آزادی کا لازمی طور پر تعلق وہ بات کہنے کے حق سے ہے جسے آپ اپنے عقیدے کے مطابق درست سمجھتے ہیں۔ ظاہر ہے اپنے عقیدے کا اظہار پرامن طریقے سے کیا جاسکتا ہے اور ان طریقوں سے بھی جن سے تشدد کو ہوا ملے۔ افسوس ہے کہ کچھ لوگ دوسروں کی طرف سے اپنے عقیدوں کے پرامن اظہار سے بھی، جو ان کے عقیدے سے مختلف ہو، طیش میں آجاتے ہیں اور اس کا جواب وہ تشدد سے دیتے ہیں۔
کچھ ریاستیں عوامی نظم و نسق کے نام پر کچھ عقیدوں کے پر امن اظہار پر بھی پابندی لگا دیتی ہیں، یہ کہتے ہوئے کہ ان سے بدامنی کا خطرہ ہے اور ان کی وجہ سے ہجوم تشدد پر آمادہ ہوسکتے ہیں۔ انڈونیشیا میں اسی بنیاد پر احمدی کمیونٹی اور لامذہب لوگوں کے عوامی اظہار پر پابندی لگائی گئی ہے۔ اس کے نتیجے میں تشدد کا شکار لوگوں پر بعض اوقات توہین مذہب یا تشدد پر اکسانے کا الزام لگ جاتا ہے، بجائے اس کے کہ حملہ کرنے والوں پر مقدمہ قائم کیا جائے۔
اس طرح کے قوانین سے تشدد نہیں رکتا۔ اس کی بجائے، ان سے یہ خیال مضبوط ہوتا ہے کہ وہ لوگ جو ’غلط عقیدہ‘ رکھتے ہیں ان کو سزا دی جائے۔
ایک اور جائز وجہ جس کا تعین مشکل ہے وہ ’عوامی اخلاق‘ کا معاملہ ہے۔ کیا سب کی اخلاقیات ایک جیسی ہوتی ہے اور کس کی اخلاقیات ’عوامی‘ ہے؟ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ماہرین کہتے ہیں کہ عوامی اخلاق لازمی طور پر ’بہت سی سماجی، فلسفیانہ اور مذہبی روایات سے سامنے آنا چاہیے‘۔ دوسرے لفظوں میں آپ محض اکثریت کی اخلاقیات کی بنیاد پر یہ پابندیاں نہیں لگا سکتے۔
شائد آپ کو حیرانی ہو کہ ’قومی سلامتی‘ مذہب یا عقیدے کی آزادی کو محدود کرنے کی جائز وجہ نہیں ہے۔
کچھ حکومتیں کچھ مذہبی گروہوں کو مطعون کرتی ہیں، خاص طور پر ان گروہوں کو جن کا مذہب دشمن ملک کے اکثریتی مذہب جیسا ہو۔ اور انہیں قومی سلامتی کے لیے ایک خطرہ قرار دیتی ہیں۔ کنونشن (معاہدہ) تحریر کرنے والوں کا اس پر اتفاق ہے کہ عوامی صحت، سلامتی اور نظم و نسق کو قائم کرنا، حقوق کو محدود کرنے کی کافی گنجائش پیدا کرتے ہیں اور ان جائز وجوہات میں قومی سلامتی کو شامل کرنے سے مذہب یا عقیدے کی آزادی پر عمل درآمد اس وقت نہایت مشکل ہوسکتا ہے جب اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہو۔
چنانچہ ہم نے یہ طے کردیا ہے کہ ریاستوں کو لگائی جانے والی پابندیوں اور ان کی جائز وجوہات میں براہ راست تعلق ثابت کرنا ہوگا۔ ہم نے یہ بھی جانا ہے کہ ان جائز وجوہات کی درست تعبیر اور اطلاق کو یقینی بنانا بہت اہم ہے۔
آیئے اب اپنے سوال کے دوسرے حصے کو دیکھتے ہیں ۔۔۔ کہ کیا یہ پابندیاں ضروری ہیں؟ یہ کسی سیاسی یا اکثریتی تناظر میں پسندیدہ تو نہیں ہیں لیکن ضروری ہیں۔
چلیے فرض کرتے ہیں کہ حکومت نے مجوزہ پابندی اور دوسروں کے حقوق اور آزادیوں کے تحفظ کے درمیان براہ راست تعلق کو واضح کردیا ہے۔
کیا خطرہ اتنا زیادہ ہے کہ یہ پابندی لگائی جائے؟
کیا مجوزہ پابندی دوسروں کے حقوق کا تحفظ کرنے میں موثر ہوگی؟
اور کیا اس مسئلہ کو حل کرنے کے حقوق کو محدود کرنے کے علاوہ، کوئی اور راستے ہیں؟
اگر تو مسئلہ زیادہ خطرناک نہیں ہے، اگر مجوزہ پابندی مسئلے کے حل میں کردار ادا نہیں کرے گی، یا اگر پابندی لگائے بغیر اس مسئلے کو حل کرنے کے اور بھی راستے موجود ہیں، تو پھر اس پابندی کی ضرورت نہیں۔
چین کی حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ بدھسٹ تربیتی مراکز میں لوگوں کی زیادہ تعداد کی وجہ سے صحت اور سلامتی کو خطرات لاحق ہیں۔ صحت اور سلامتی کا تحفظ پابندی کی جائز وجوہات ہیں۔ ایک حل یہ ہوسکتا ہے کہ ان مراکز کو وسیع کردیا جائے اور ضروری تعمیر نو ہوجائے۔ اس حل سے کسی کے حقوق محدود نہیں ہوتے۔ اس کے بجائے حکومت نے پورے علاقے کی عمارات گرا دیں اور ایک ہزار راہبات کو نکال دیا۔ یہ ضروری نہیں تھا۔
یقینا کچھ پابندیاں ضروری ہیں۔ اقوام متحدہ نے واضح طور پر کہا ہے کہ نقصان دہ روایتی رسموں پر پابندی ہونی چاہیے، جیسے مذہب قبول کرنے کی بعض رسومات اور عورتوں کے ختنہ کرنا۔
تاہم کچھ معاملات اتنے واضح نہیں ہیں۔ لیکن کسی پابندی کو ضروری ثابت کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔
جب ایک بار یہ طے ہوجائے کہ ریاست کے پاس کوئی پابندی لگانے کی جائز وجوہات ہیں، اور پابندی ضروری ہے، تو ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا پابندی امتیازی ہے؟
آپ شائد سوچیں کہ یہ دیکھنا آسان ہے کہ آیا قوانین، پالیسیاں یا پریکٹیسز امتیازی ہیں یا نہیں۔ اور اگر یہ پابندی کچھ لوگوں پر لگے اور کچھ پر نہیں تو یہ امتیازی ہے۔ یہ براہ راست امتیاز ہے جس پر پابندی ہے۔
لیکن بعض اوقات وہی قوانین جو سب پر نافذ ہوتے ہیں کچھ لوگوں پر ان کا بہت زیادہ اثر ہوتا ہے اور کچھ لوگوں پر بالکل اثر نہیں ہوتا۔ اس کو بالواسطہ امتیاز کہتے ہیں۔
چلیے دوبارہ اسی مثال کو دیکھتے ہیں کہ جہاں ایک قصبے میں عبادت گاہوں کی اونچی آوازوں سے پڑوسی پریشان ہوتے ہیں۔ کونسل نے ایک ایسا قانون بنایا ہے جو عوامی اجلاس میں آوازوں کو محدود کرتا ہے اور مذہبی گروہ اپنے لاؤڈ سپیکرز کی آواز اس کے مطابق کم کرلیتے ہیں۔ لیکن چرچ کی گھنٹیاں بہت زیادہ اونچی ہیں اور آپ انہیں کم نہیں کرسکتے۔ اس قانون پر عمل کرتے ہوئے چرچ کو اپنی ایک روایتی رسم کو چھوڑنا پڑے گا جبکہ دوسرے مذاہب کو اس سے فرق نہیں پڑتا۔
یہ بالواسطہ امتیاز ہے۔
عمومی قوانین کی ایسی بہت سی مثالیں ہیں جن کا نتیجہ بالواسطہ امتیاز کی صورت میں سامنے آتا ہے:
بہت سے ممالک میں چاقو یا تلوار کو عوامی جگہوں پر لے جانے پر پابندی ہے۔ اس سے کسی مذہب والوں کو فرق نہیں پڑتا، سوائے سکھوں کے۔ سکھ مردوں کے لیے لازمی ہے کہ وہ اپنے لباس میں کرپان رکھیں جو تلوار یا چاقو کی ایک رسمی شکل ہے۔ چنانچہ اس قانون سے سکھوں پر پابندی لگتی ہے کہ وہ اپنا ایک مذہبی فریضہ پورا کرسکیں۔
بعض ملکوں میں شہری منصوبہ بندی والوں کی طرف سے نئی بننے والی عمارتوں کے لیے لازمی ہے کہ وہ اپنے آس پاس کی عمارتی جائیداد کے مالکان سے منظوری حاصل کریں۔ لیکن اس میں پڑوسی تعصب برت سکتے ہیں۔ چنانچہ چھوٹے اور غیر روایتی گروپوں کے مقابلے میں روایتی گروپوں کے لیے یہ اجازت نامہ حاصل کرنا آسان ہوتا ہے۔
پالیسیوں اور پریکٹسز سے بھی مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔ اگر کوئی یونیورسٹی داخلے کے امتحان ہمیشہ ہفتہ کے دن منعقد کرتی ہے تو اس سے ایڈونٹسٹ اور باعمل یہودیوں کے لیے مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔ اکثر اقلیتی کارکنوں کو اپنے مذہبی تہواروں کے بجائے اکثریتی مذہبی تہواروں کے مطابق چھٹیاں لینی پڑتی ہیں۔
براہ راست امتیاز پر ہر صورت پابندی ہے۔ تاہم عدالتوں کو چاہیے کہ وہ بالواسطہ امتیاز کے عملی مسئلہ کو ہر ممکنہ حد تک حل کرنے کی کوشش کریں۔ اور اکثر سادہ حل تلاش کیے جاسکتے ہیں۔ اوپر قصبے کی مثال میں عدالت اتوار اور مذہبی تہواروں پر چرچ کی گھنٹیاں بجانے کی اشتثنائی اجازت دے سکتی ہے۔
سویڈن میں یونیورسٹی کے داخلے کے امتحان ہفتے کے دن منعقد ہوا کرتے تھے۔ اب وہ جمعہ کے دن بھی منعقد کیے جاتے ہیں۔ اور کام کی جگہوں پر یونیفارم میں کسی کی مذہبی ضرورت کے تحت تبدیلی کی اجازت بھی دی جاسکتی ہے جیسے پگڑی باندھنے کی۔
لیکن عدالتیں جانتی ہیں کہ ہمیشہ ایسا ممکن نہیں۔ بالواسطہ امتیاز قانونی ہوسکتا ہے اگر ثابت کیا جاسکے کہ اس کی بڑی وجہ موجود ہے ۔۔۔ یعنی اس کا ایک معروضی جواز ہے۔
مثال کے طور پر، ہسپتال کی انفیکشن کنٹرول کرنے کی پالیسیاں، سٹاف پر کوئی زیور پہننے پر پانبدی لگاتی ہیں جن سے کچھ گروہوں کے ساتھ امتیاز ہوتا ہے۔ لیکن عوامی صحت کی بنیاد پر اس کا جواز موجود ہے۔
عوامی صحت کو یقینی بنانا مذہب یا عقیدے کی آزادی کو محدود کرنے کی جائز وجہ ہے۔ لیکن بالواسطہ امتیاز کے حوالے سے عدالتیں دیگر وجوہات کو بھی تسلیم کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر ایک کمپنی یہ دلیل دے سکتی ہے کہ پالیسیاں تبدیل کرنے سے اس کے مفادات پر ضرب پڑے گی۔ ایک کپڑوں کی دکان کو جو اپنے سیلز کے لوگوں سے کہتی ہے کہ وہ اس کے بنائے ہوئے کپڑے پہنیں، مجبور نہیں کیا جاسکتا کہ وہ اپنی سیلز کے لیے ایسے شخص کو بھرتی کرے جو مذہبی بنیاد پر اس کمپنی کے کپڑے پہننے سے انکار کرے۔
تو جبکہ براہ راست امتیاز پر پابندی ہے، بالواسطہ امتیاز سے بھی حتی الامکان بچنے کی ضرورت ہے اور ممکنہ طور پر ایسے راستے تلاش کیے جائیں جن سے افراد اور گروہوں کی ضروریات کو پورا کیا جاسکے۔
جب ایک بار یہ طے ہوجائے کہ پابندی غیر امتیازی ہے ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا یہ متناسب ہے؟
اظہار کو کس حد تک محدود کیا جاسکتا ہے؟ کس چیز پر پابندی ہونی چاہیے؟ کس کے لیے، کب اور کہاں؟
اس میں ایک بہت بڑا فرق ہے کہ کچھ مخصوص پیشوں میں، کچھ مخصوص کام کی جگہوں پر، کچھ مخصوص طرح کے مذہبی لباس پر پابندی لگائی جائے اور گلی میں چلنے والے ہر شخص پر کوئی مذہبی لباس پہننے پر پابندی لگا دی جائے!
چنانچہ بین الاقوامی عدالتیں تناسب کو دیکھتی ہیں۔ امریکی عدالتیں اس سے بھی کڑا معیار اپناتی ہیں ۔۔۔ پابندی یا تحدید زیادہ سے زیادہ ممکنہ نرمی کے ساتھ لگائی جائے۔
ایک آخری پہلو جس پر بعض عدالتیں غور کرتی ہیں، وہ تعبیر کی گنجائش ہے۔ دنیا میں تنوع موجود ہے اور انسانی حقوق کے اصولوں پر قومی سیاق و سباق میں مختلف انداز میں عمل ہوسکتا ہے۔
اسی وجہ سے بعض بین الاقوامی عدالتیں، ’تعبیر کی گنجائش‘ پر عمل کرتی ہیں جس کا بنیادی طور پرمطلب یہ ہے کہ قومی حکومتیں قومی سیاق و سباق کو بہتر سمجھتی ہیں اور وہ قومی قانون بنانے کے لیے زیادہ موزوں ہیں۔ بین الاقوامی عدالتیں انہیں ایک حد تک یہ استحقاق دیتی ہیں۔
یہ سوال کہ ریاستوں کو کس حد تک یہ استحقاق حاصل ہونا چاہیئے اورکتنی زیادہ گنجائش انہیں دی جاسکتی ہے، بحث کا ایک اہم موضوع ہے۔
مختصر یہ کہ:
یہ سوچتےہوئے کہ کیا کوئی پابندی جائز ہے، ہم درج ذیل طریقہ کار اختیار کرتے ہیں:
۔۔ یہ فیصلہ کہ ایک قانون مذہب یا عقیدہ رکھنے یا بدلنے کے آپ کے حتمی حق یا اس کے اظہار کے حق کو محدود کرتا ہے۔
۔۔ یہ طے کرنا کہ جس رویے کو محدود کیا گیا وہ تحفظ شدہ اظہار میں شمار ہوتا ہے۔
۔۔ یہ دیکھنا کہ پابندی کی کوئی قانونی بنیاد ہے۔
۔۔ یہ طے کرنا کہ کوئی اظہار کس حد تک پابندی یا تحدید کی جائز وجہ کے لیے خطرہ ہے جیسا کہ دوسروں کی آزادیاں اور ان کے حقوق۔
۔۔ یہ دیکھنا کہ کوئی پابندی براہ راست یا بالواسطہ امتیاز کا باعث ہے۔
۔۔ یہ دیکھنا کہ پابندی مسئلے کے تناسب سے ہے اور اس کو حل کرنے میں موثر ہوگی۔
جب ہم ان دلائل کو سمجھ جاتے ہیں جو عدالت کو انسانی حقوق کی مناسبت سے استعمال کرنے چاہئیں تو ہم اپنے حقوق کی زیادہ بہتر حفاظت کرسکتے ہیں۔ ہم اس عوامی بحث میں بھی زیادہ بہتر طور پر حصہ لے سکتے ہیں کہ آیا عدالتیں اور حکومت ان کو درست طور پر سمجھ رہی ہیں یا کہیں وہ درحقیقت مذہب یا عقیدے کی آزادی کی خلاف ورزی کی مرتکب تو نہیں ہو رہیں۔
Copyright: SMC 2018
End of Transcript
8۔ مذہب یا عقیدے کی آزادی کی حدود
بہت سی حکومتیں مذہب یا عقیدے کی آزادی کو محدود کرتی ہیں، لیکن ہمیں کیسے معلوم ہو کہ کب یہ حدود یا پابندیاں جائز ہیں جن کی اجازت دی گئی ہے اور کب نہیں؟ اس میں ان اصولوں پر ایک گہری نظر ڈالی گئی ہے جو انسانی حقوق کے کنونشنز میں دیے گئے ہیں اور جن کی پاسداری مذہب یا عقیدے کی آزادی کو نافذ کرتے ہوئے قانون سازوں اور عدالتوں کو کرنی چاہیے۔ ہماری آٹھ مختصر فلموں میں سے آٹھویں فلم، جو مذہب یا عقیدے کی آزادی پر بنیادی سکھائی پیکیج کا حصہ ہے، انہیں مذہب یا عقیدے کے سکھائی پلیٹ فارم نے بہت سے دوسرے انسانی حقوق اور عقیدے کی بنیاد پر کام کرنے والے اداروں اور تنظیموں کے اشتراک سے پیش کیا۔